نیویارک(این این آئی)پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں انسانی اور معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے اقدامات نہ کیے گئے تو اسکے بڑے پیمانے پر انسانی مشکلات، مزید افغان پناہ گزینوں، اندرونی تنازعات کے دوبارہ سر اٹھانے اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کی طرف سے خطرات میں اضافے جیسے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے گزشتہ روز طالبان کی پالیسیوں کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ ہم افغانستان کی حالیہ ہنگامہ خیز تاریخ کے ایک اور موڑ پر ہیں، ہمیں اپنے مقصد کو واضح کرنے کی ضرورت ہے اور
ہمارا بنیادی مقصد افغانستان میں امن اور استحکام کا حصول ہونا چاہیے جہاں بدھ کو آنے والے زلزلے نے تباہی مچا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم کے وزرا خارجہ کے چیئرمین کی حیثیت سے پاکستان نے ا قوام متحدہ کی 15رکنی سلامتی کونسل کو ایک دستاویز بھیجی ہے جس میں امن کے راستے کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جو او آئی سی کی گزشتہ 2 وزارتی کانفرنسوں میں کئے گئے غور و فکر کانتیجہ ہے۔او آئی سی کے ارکان نے افغانستان میں بحالی، تعمیر نو، تعلیم، مالی اور مادی امداد سمیت مستقل روابط پر زور دیا۔ پاکستانی مندوب نے اس بات کا اعادہ کیا کہ افغانستان کی اپنے مالی وسائل تک رسائی معاشی تباہی کو روکنے کے لیے اہم ہوگی۔ انہوں نے سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ مبنی بر ہدف پابندیاں انسانی امداد یا معاشی وسائل کی فراہمی میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ وہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کے ساتھ کام کرنے کے لیے بے چینی سے منتظر ہیں اور افغانستان میں اقوام متحدہ کاامدادی مشن یکطرفہ پابندیوں کے اثرات اور افغانستان کے منجمد اثاثوں کو بحال کرنے میں مدد کرے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان خاص طور پر افغانستان سے ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بارے میں فکر مند ہے جن کی سرپرستی اور مالی معاونت ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی طرف سے کی جاتی ہے۔ ہم پاکستان کے خلاف اس طرح کے دہشت گرد حملوں کو ختم کرنے اور غلط معلومات کی مہم کو ختم کرنے کے لیے موثرطریقے تلاش کریں گے جو سلامتی کونسل کے ایک رکن ملک نے پاکستان کے خلاف شروع کی ہے جو دہشت گردی کی ریاستی سرپرست ہے۔