متعلقہ

جمع

قصہ اردو ادب کی قد آور شخصیت رشید حسن کا۔۔۔۔۔

Spread the love

رشید حسن خاں اُردو ادب کی ایسی ہی قد آور شخصیت کا نام ہے جس کا ذکر کیے بغیر اُردو تحقیق و تدوین، املا، زبان و قواعد اور تبصراتی ادب کا باب ہمیشہ نامکمل رہے گا۔ ان کے ادبی کارناموں کا پتّھر اتنا بھاری ہے کہ اسے اُٹھانے کے لیے ہمیں دوسرا رشید حسن خاں بننا پڑے گا۔1939ء میں جب رشید حسن خاں شاہ جہاں پور(بھارت) میں فیکٹری میں کام کرتے تھے تو اِسی زمانے میں ان کے اندر علمی و ادبی ذوق و شوق پیدا ہوا۔ انھوں نے تین تین شفٹوں میں کام کرتے ہوئے طلسم ہوش رُبا کی تمام جلدیں پڑھ ڈالیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے شوقین بک ڈپو، شاہ جہاں پور سے کرائے پر کتابیں لے کر ان کا مطالعہ کیا۔ ان کے مطالعے کے شوق نے ان کے اندر اردو ادب کی خدمت کا جذبہ پیدا کیا۔ کثرتِ مطالعہ کی وجہ سے صرف پچیس برس کی عمر میں انھوں نے اپنا پہلا مضمون ’’شبلی کی فارسی شاعری‘‘ کے عنوان سے رسالہ ’نگار‘ مئی 1950ء میں شایع کروایا۔ انہی دنوں احمد ندیم قاسمی کے قطعات کے مجموعے’’رم جھم‘‘ پر بھی تبصرہ نما ’ندیم کے قطعات‘ لکھا جو رسالہ ’شاعر‘ میں جولائی 1950ء کے شمارے میں شایع ہوا۔ہندوستان کی آزادی کے بعد وہ ہندوستانی اور پاکستانی رسائل کا پابندی کے ساتھ مطالعہ کرتے تھے۔ رسالہ’ الحمرا‘، ’المنصور‘، ’نگار‘ اور’ نقوش‘، ’اُردو ادب‘، ’شاعر‘کے علاوہ’ سیارہ‘ میں شائع ہونے والے مضامین پر ان کی گہری نگاہ رہتی تھی۔ رشید حسن خاں اپنے ابتدائی زمانے سے ہی رسائل میں شایع ہونے والے مضامین کی زبان و بیان کے مسائل کا عمیق مشاہدہ کرنے کے بعد ان پر گرفت کرتے تھے۔ اردو زبان میں در آئے غلط الفاظ کے استعمال کے تعلق سے انھوں نے رسالہ الحمرا، لاہور میں نومبر 1952ء سے لے کر جون

1953ء تک ایک قسط وار مضمون ’’اُردو ہماری زبان، ترتیبِ نو‘‘ تحریر کیا۔ اس پر ہم عصر ادیب ان سے خفا ہو گئے۔ اس مضمون کے اختتام پذیر ہوتے ہی مدیرِ رسالہ حامد علی خاں نے ’’اُردو کی ترتیبِ نو‘‘ کے عنوان سے باقاعدہ ایک بحث کا آغاز کیا۔

رشید حسن خاں نے اپنے بے لاگ تبصروں سے بھی اُردو زبان و ادب کی خدمت کی۔ 1954ء کے بعد فیضؔ، مجروح، فراق، اثرؔ، جوشؔ غیرہ کے علاوہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ شاعروں اور افسانہ نگاروں کی زبان و بیان پر رشید حسن خاں نے طویل تبصرے رقم کیے۔ ان تبصروں میں شعرا و ادبا کے کلام و کام کو زبان و بیان اور اسلوب کی کسوٹی پر پرکھا گیا تھا۔ رشید حسن خاں نے اردو زبان و ادب کی تعمیر و ترقی کے لیے ’’اُردو املا‘‘ اور ’’زبان اور قواعد‘‘جیسی کتابیں تصنیف کیں۔ اردو املا کتاب کو رشید حسن خاں نے مسلسل 12 سال کی محنت کے بعد لکھا تھا۔

موصوف نے بچّوں کے لیے بھی ’’اردو کیسے لکھیں ‘‘،،’’عبارت کیسے لکھیں ‘‘،’’انشا اور تلفظ‘‘وغیرہ کتابیں تحریر کیں۔رشید حسن خاں نے اپنے کئی انٹرویوز میں کہا کہ جب تک ہم اپنے بچّوں کو اُردو زبان و ادب سے روشناس نہیں کرائیں گے تب تک اردو زبان و ادب کی ترقی ممکن نہیں۔ نئی نسل کو اردو زبان کی طرف راغب کرنے کے سوال پر ایک مرتبہ انھوں نے کہا’’بیش تر اردو والے اپنے بچّوں کو اردو پڑھانا ضروری نہیں سمجھتے۔ اس سلسلے میں سب سے اندوہ ناک صورتِ حال یہ ہے کہ اردو کے جو بڑے اور مشہور لکھنے والے ہیں، ادیب ہیں، شاعر ہیں اور استاد ہیں، ان میں سے بیش تر کے بچّے اردو سے ناواقف ہیں۔ اسی طرح ہم اردو والے ہی اردو زبان کا دائرہ چھوٹا کرتے جا رہے ہیں۔ نئی نسل، اردو زبان کی طرف راغب ہو سکتی ہے بہ شرط یہ کہ نئی نسل کے والدین اور اساتذہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔‘‘

رشید حسن خاں کے خطوط کی ورق گردانی کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ موصوف اُردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے کتنے فکر مند تھے۔ اپنے ادب نواز دوستوں کو ہمیشہ صحیح اُردو لکھنے اور بولنے پر آمادہ کرتے تھے۔ رشید حسن خاں کے خطوط میں سب سے زیادہ باتیں اُردو املا اور زبان کے مسائل پر ہی ہیں۔رشید حسن خاں نے تدوین کے ذریعے بھی اردو زبان و ادب کی بیش بہا خدمت کی ہے۔ باغ و بہار، فسانۂ عجائب، مثنوی سحر البیان، مثنوی گلزارِ نسیم، مثنویاتِ شوق، کلیاتِ جعفر زٹلی، دہلی کی آخری شمع، نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری کچھ ان کی زبانی، گزشتہ لکھنؤ، مقدمۂ شعر و شاعری، دیوانِ حالی، مصطلحاتِ ٹھگی، انتخابِ ناسخ، انتخابِ مضامین شبلی وغیرہ کلاسکی متون کی تدوین نے اردو زبان و ادب کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ہندوستان اور پاکستان کے مختلف اداروں نے رشید حسن خاں کی ادبی خدمات کے صلے میں انھیں انعامات و اعزازات سے نوازا۔

  (ابراہیم افسر کے مضمون سے ماخوذ)  بشکریہ : اے آر وائی