تحریر : طیبہ بخاری
فراق گورکھپوری کی شاعری کا مزاج سمجھنے کیلئے انکا ایک شعر ہی کافی ہے کہ
شب سیاہ میں گم ہو گئی ہے راہِ حیات
قدم سنبھل کے اٹھاﺅ بہت اندھیرا ہے
معروف مصنف، ادیب، نقاد اور شاعرفراق گورکھپوری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ، 28 اگست 1896ءکو پیدا ہونیوالی اس ہستی کا شمار بیسویں صدی کے اردو زبان کے صفِ اول کے شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا۔جدید شاعری میں فراق
کو بہت بلند درجے پر فائز سمجھا جاتا ہے، آج کی شاعری پر بھی فراق کے اثر کو باآسانی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ حاضر جوابی میں ان کاکوئی کوئی نہیں تھا۔ بین الاقوامی ادب سے بھی شغف رہا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال، فیض احمد فیض، کیفی اعظمی، یگانہ یاس چنگیزی، جوش ملیح آبادی، جگر مرادآبادی اور ساحر لدھیانوی جیسے شعراءکی موجودگی میں نام کمانا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن فراق نے یہ کمال بھی کر دکھایا ۔ اتنی عظیم ہستیوں کی موجودگی میں انہوں نے شاعری کی دنیا میں اپنا مقام بنایا۔
فراق کے حالات زندگی کا جائزہ لیں تو وہ پی سی یس اور آئی سی یس (انڈین سول سروس) کےلئے منتخب ہوئے تھے۔ لیکن گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون کی مخالفت میں مستعفی ہو گئے اور جیل بھی گئے۔حسرت موہانی، رفیع احمد قدوائی اور دوسرے سیاسی رہنماوں سے قربت ہوئی جیل میں مشاعرے ہوتے کئی غزلیں فراق نے جیل میں کہیں۔ ایک غزل کا مقطع بہت مشہور ہوا:
اہل زنداں کی یہ محفل ہے ثبوت اس کا فراق
کہ بکھر کر بھی یہ شیرازہ پریشاں نہ ہوا
اس کے بعد جامعہ الٰہ آباد میں انگریزی زبان کے لیکچرر مقرر ہوئے، آل انڈیا ریڈیو کے پروڈیوسر بھی رہے۔یہیں سے دنیائے شعر و ادب کے آسمان پر سورج بن کر چمکے اور معاصرین کومنوایا کہ انکی شاعری میںدیگر شعراءکے مقابلے میں وہ ”فرق “ہے جو انہیں منفرد مقام دلاتا ہے۔ ان کی شہرہ آفاق کتاب” گل نغمہ “ کو ہندوستان کا اعلیٰ معیار ادب گیان پیٹھ انعام بھی ملا۔1960ءمیں انہیں ساہتیہ
اکیڈمی ایوارڈ ، 1968ءمیں پدم بھوشن ، 1968ءمیں نہرو ایوارڈ، 1969ءمیں اردو شاعری میں پہلا گیان پیٹھ انعام اور 1981ءمیں غالب اکیڈمی ایوارڈ بھی اپنے نام کیا ۔
جب 1935 ءمیں سجاد ظہیر لندن سے واپس آئے اور ایک خاص سیاسی و اشتراکی نقطہ نظر کے ساتھ الہ آباد میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد ڈالنی چاہی تو جن لوگوں نے سجاد ظہیر کا سب سے زیادہ کھل کر ساتھ دیا ان میں اعجاز حسین اور احمد علی کے ساتھ فراق پیش پیش تھے۔ فراق نے پہلی کانفرنس میں مقالہ بھی پڑھا۔ 1947 ءمیں دہلی کانفرنس کی صدارت بھی کی اور عمدہ تقریر کی۔اسی کے آس پاس فرقہ پرستی کے خلاف ان کی ایک طویل تقریر مقالے کی شکل میں” ہمارا سب سے بڑا دشمن “شائع ہوئی 1954 ءمیں بستی کی کانفرنس میں ان کی تقریر، 1956 ءمیں ایشیائی ادیبوں کی کانفرنس میں یادگار تقریر کے علاوہ 1970 ءاور 1973ءکے جلسوں کی تقریروں میں وہ شاعر فلسفی کم صوفی زیادہ نظرآ نے لگے۔ ”من آنم “ کے خطوط میں انہوں نے حیات و کائنات کا فلسفہ نچوڑ کر رکھ دیا۔ فراق 1959 ءمیں ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ طویل علالت کے باعث یہ بے مثل شاعر 3 مارچ 1982ءکو 85 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوا۔