تحریر :صاحبزادہ پیر مختار احمد جمال تونسوی
حضور سیدِ عالم حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دنیائے رنگ وبو میں آمد پرآپؐ کی سیرت طیبہ کے بے شمار روشن پہلوﺅں میں سے ایک انتہائی خاص پہلو” عفووکرم“کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے آپﷺ کا مقام ومرتبہ سب سے جداگانہ اور منفرد ہے۔یقیناً آپؐ کی ذاتِ گرامی صورت میں اجمل اور سیرت میں اکمل ہے۔
عربی زبان میں عفو کے معنی چھوڑ دینا کے ہیں یعنی قصور کرنے والے کو سزا نہ دیتے ہوئے اسے معاف کردیناعفو کہلاتا ہے۔خداوندِقدوس کے اسمائے پاک میں سے ایک ”العفو“بھی ہے یعنی معاف کردینے والا۔معاف کردینا اللہ رب العزت کی ایک خاص صفت ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس بارے ارشاد فرمایا کہ، ترجمہ”پس تمہیں چاہیے کہ لوگوں کو معاف کیا کرو،اور ان سے در گزر کیا کرو۔“
حضور اقدسﷺکی سیرتِ طیبہ ہمارے لیے ایک بہترین نمونہ ہے،پروردگارِ عالم کی پاک ذات نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا کہ
،ترجمہ”یعنی تمہارے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی مبارک میں بہترین نمونہ ہے۔“
رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ مقدس ہے کہ”مجھے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس قدر ڈرایاگیا کہ کوئی(دوسرا انسان)اس قدر نہیں ڈرایا گیا،اور مجھے اس قدر ایذاءپہنچائی گئی کہ کسی(دوسرے انسان)کو اس قدر ایذا نہیں پہنچائی گئی۔“اعلانِ نبوت سے لے کر فتح مکہ تک رحمتِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدس پرمصائب کے اس قدر پہاڑ توڑے گئے کہ تاریخ انسانی جس کی مثال دینے سے قاصر ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبروتحمل سے اپنے بدترین دشمنوں کے ساتھ شرافت وحسنِ سلوک،عفوودرگزر اور رحمت وشفقت کا وہ سلوک روا رکھا جو چشمِ فلک نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔حسنِ سلوک کے یہ فرحت آگیں مناظربے مثل وبے نظیر تھے۔آپﷺ پر لوگوں نے پتھر برسائے ،مگر آپؐ نے انہیں دعاﺅں سے نوازا۔بڑھیا نے گندگی پھینکی،مگر آپؐ نے اس کی تیمار داری فرمائی ۔حاطم طائی کی بیٹی کیلئے اپنی چادر بچھادی ۔فتح مکہ کے واقعہ کو ہی لے لیجئے کہ جب فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تومفتوحین کے ساتھ محبت شفقت اور معافی کا معاملہ فرمایا جب مہاجرین مکہ10 ہزار لشکر جرار لے کر کفروشرک پر چڑھائی کرتے ہیں اور فرطِ مسرت میں ڈوبے ہوئے اس عظیم اسلامی لشکر سے آواز آتی ہے کہ آج بدلے کا دن ہے،اور خوب بدلہ لیں گے ,آج کوئی نہیں بچے گا ,ہر کوئی اپنے اپنے انجام کو پہنچے گا۔
مگر نبی کریم آقاﷺ نے سب پرنگاہِ رحمت ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا ”بولو،تم لوگوں کو کچھ معلوم ہے،آج میں (محمدﷺ)تم لوگوں سے
کیامعاملہ کرنے والا ہوں؟“
یہ سوال سن کرسب مجرم کانپ اُٹھے اور اُن پہ لرزہ طاری ہوگیا،کیوںکہ ماضی قریب میں آپؐ پر اپنے ہاتھوں اور زبان سے کیے ہوئے ظلم وستم ایک ایک کرکے سب یاد آرہے تھے۔سب کے سب بارگاہِ رسالت مآبؐ میں سر جھکاکر یک زبان ہو کر بولے:
یارسولؐ اللہ !آپؐ کریم بھائی اور کریم باپ کے بیٹے ہیں۔یہ جواب سن کررحمتِ عالمﷺنے اپنے دلنشین اور کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا”آج میں وہ کہتا ہوں،جو میرے بھائی حضرت یوسف علیہ اسلام نے کہا تھا ،آج کے دن تم سے کوئی مواخذہ نہیں۔“
نبی کریم آقاﷺ نے عفوعام کا اعلان فرمادیا،معافی کا اعلان سنتے ہی مجرموں کی آنکھیں فرطِ جذبات سے اشکبار ہو گئیں اور زبان پر کلمہ طیبہ لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ جاری ہوگیا۔ان معافی پانے والوں میں کیسے کیسے لوگ تھے آیئے اُن میں سے چند ایک کی جھلک دیکھتے ہیں۔
٭عکرمہ بن ابوجہل ،جو مختلف طریقوں اور بہانوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ستانے میں ابو جہل سے کسی طرح کم نہ تھا،فتح مکہ کے دن اپنی جان بچانے کی خاطر یمن بھاگ گیا،اس کی بیوی ام حکیم بنت حارث بن ہشام نے اسلام قبول کیا اور بارگاہِ رسالت مآبﷺمیں عرض کیا :یا رسولؐ اللہ !عکرمہ کو امان دیجئے۔حضورِ اقدسؐ نے ارشاد فرمایا”عکرمہ کیلئے امان ہے۔“
٭اابو سفیان بن حرب کی بیوی ہندہ ،جس نے سیدِ عالم ﷺکے پیارے چچا حضرت امیر حمزہؓ کی شہادت کے بعد پیٹ چاک کرکے کلیجہ نکال کر چبایا تھا۔
٭عبداللہ بن ابی سرح ،جو کفر ونفاق کی حالت میں اس قدر خائن تھا کہ قرآن پاک کے الفاظ تک بدل دیا کرتا تھا
٭عبداللہ بن زبعریٰ،جو شاعر تھا اور دن رات مذاق اُڑایا کرتا تھا۔
٭صفوان بن امیہ بن خلف،جوہمہ وقت لوگوں کو رسولِ عربیﷺکے(نعوذ باللہ) قتل کرنے پرآمادہ اور ترغیب دیا کرتا تھا۔
٭ابو سفیان،جس کی زندگی کا ہر ہر لمحہ حضور سیدِ عالمﷺکو تکلیف پہنچانے اور آپ کی زندگی کو ختم کرنے کی تجویزیں سوچنے کیلئے صرف ہوتا تھا۔
رحمتِ دوعالمﷺکا فرمانِ مقدس کہ”میرے ربِ قدوس نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ جو کوئی مجھ پر ظلم کرے میں اس کو قدرت انتقام رکھنے کے باوجود معاف کردوں۔“(مشکوٰةشریف)
اللہ عزوجل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوجملہ خصوصیات کیساتھ تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر اس دنیا میں مبعوث فرمایا ۔ آج کا مبارک دن امتِ مسلمہ سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ خرافات سے بچتے ہوئے اتباع سنت اختیار کی جائے….کہ یہی آپﷺ سے سچی محبت کا عملی ثبوت ہے۔