تحریر : طیبہ بخاری
سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو 15 سال پہلے آج ہی کے دن 8 برس کی جلاوطنی کے بعد وطن واپس آئیں تو کراچی میں عوام نے ان کا شانداراستقبال کیا، کارساز کے مقام پر استقبالی جلوس میں بم دھماکے ہوئے جن میں 177 افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے اور 600 سے زائد زخمی ہوئے۔وہ مناظر شاید تاریخ کبھی بھلا پائے کہ جب محترمہ جہاز سے باہر آئیں اور بڑی تعداد میں کارکنوں اور عوام کو اپنے استقبال کیلئے پر جوش پایا ، یہی وہ وقت تھا کہ جب بی بی آبدیدہ ہو گئیں ، شکرانے کے طور پر اوپر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے رب ذوالجلال کو یاد کیا دعا مانگی ۔ ان کے اردگرد ناہید خان اور کئی پارٹی رہنما تھے جو ان کا حوصلہ بڑھا رہے تھے ۔ کہیں سے ایک کبوتر بھی آیا اور بی بی کے کندھے پر بیٹھ گیا ، ناجانے یہ کیسا “استقبال” اور کیسا” استقبالی” تھا لیکن کیمرے کی آنکھ نے وہ مناظر محفوظ کر لیے اور ٹی وی سکرینز پر سب نے بینظیر کا “بینظیر استقبال “دیکھا اور سراہا ۔
ابھی یہ جذباتی مناظر جاری تھے ،پیپلز پارٹی کی خصوصی سیکیورٹی ’’جاں نثاران بینظیر بھٹو‘‘ کے حصار میں استقبالی جلوس چند کلومیٹر کا راستہ گھنٹوں میں طے کرکے شارع فیصل پر کارساز کے مقام پر پہنچا ہی تھا کہ بینظیر بھٹو کے بلٹ پروف ٹرک کے قریب 2 دھماکے ہوئے جن میں وہ خود تو محفوظ رہیں لیکن جانثار کارکنوں سمیت 177 افراد جاں بحق جبکہ 600 سے زائد زخمی ہوگئے۔ بینظیر
بھٹو کو ٹرک سے اتارا گیا اور بحفاظت گھر پہنچایا گیا ۔ لیکن اگلے ہی روز بی بی صبح سویرے ہسپتالوں میں زیر علاج اپنے کارکنوں کی خیریت دریافت کرنے پہنچ گئیں ، اب ان کے چہرے پر وطن واپسی کی خوشی نہیں اپنے کارکنوں کا غم نمایاں تھا وہ ایک غمزدہ ماں ، بہن ، بیٹی کی طرح کارکنوں کے لواحقین سے مل رہی تھیں ۔ پھر یہ وقت بھی گزر گیا ، پیپلز پارٹی نے سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کی مالی امداد کی ، واقعے کی 2 ایف آئی آرز بھی درج ہوئیں لیکن کوئی ملزم یا مجرم نہیں ملا ۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے سانحہ کار ساز کے بہادر شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔سانحہ کار ساز کے 15 سال مکمل ہونے پر اپنے خصوصی پیغام میں آصف زرداری کہتے ہیں” جیالوں نے بم دھماکوں سے بے خوف ہو کر اپنی عظیم بہن اور قائد کی حفاظت کی۔ آج محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور ان کے ہزاروں جیالوں کے خون سے جمہوریت قائم ہے، پیپلز پارٹی عہد کرتی ہے چاہے کچھ بھی ہو جائے جمہوریت پر آنچ آنے نہیں دے گی۔ ہماری جدوجہد اس روشن صبح کے لیے ہے جب ہر نوجوان بر سر روزگار ہو گا۔معاشی اور سماجی طور پر کمزور طبقات کو معاشی اور سماجی انصاف مہیا ہو گا۔
یہاں بینظیر بھٹو کی “بینظیر شان و شوکت ” کی نذر شوکت رضا شوکت کی شاہکار نظم دہراتے چلیں
وہیں پہ اس کی دھوم تھی
وہ ایک اپنی ذات میں
اکائی تھی ہجوم تھی
غریب قوم کے لیے
وہ باپ کی سفیر تھی
نظیر جس کی نہ ملے
وہ اتنی بے نظیر تھی
وفاق کی امنگ تھی
عوام ہی کے سنگ تھی
کنیز کربلا کی بس
یزیدیت سے جنگ تھی
بہا کے لے گئی وہ
ہر ستم کو اپنی موج سے
وہ کربلائے وقت میں
ڈری نہیں ہے فوج سے
وہ آمروں کی گردنوں پہ
وہ نقش پاء جما گئی
وہ “بھٹو بھٹو” کرکے
سب کو بھٹو ہی بنا گئی
بھرم اسی کے دم سے تھا
وہ دیس کا وقار تھی
وہ دشمنوں پہ “تیر”تھی
وہ “بنت ذولفقار”تھی
سنو کہ اس کی قبر بھی
فتح کا اک نشان ہے
اسی کے پاس تیر ہے
اسی کے پاس کمان ہے
وطن کے ہر غریب کو
جگا کے آپ سو گئی
شعور جب طلوع ہوا
تو خود غروب ہو گئی
وطن کو بھائی بھی دیا
وطن کو باپ بھی دیا
بقائے ملک کے لیے
پھر اپنا آپ بھی دیا
وطن کی ماں چلی گئی
سنو لحد کی گود میں
وہ صاحب مراد ہے
وہ کل بھی زندہ باد تھی
وہ آج بھی زندہ باد ہے