لاہور( طیبہ بخاری سے ) زمین پھٹی نہ آسمان گرا …..کہاں ہیں انصاف فراہم کرنیوالے ادارے …؟کہاں ہیں شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے والے …؟ کہاں ہیں قانون کے رکھوالے …؟ کہاں گئے درد دل رکھنے والے ….؟ سیلاب سے بے گھر ہونیوالوں کو اب بے عزت بھی کیا جائے گا …؟ کیا ہمارا معاشرہ اتنا بے رحم ، سنگدل اور سفاک ہو چکا ہے …؟
ہم صرف لفظوں سے ہی مذمت کر سکتے ہیں …. ضمیر جگانے کی کوشش کر سکتے ہیں….شرم دلانے کی کوشش کر سکتے ہیں ….گر کسی کو آئے ……. کراچی سے اس ایک انتہائی افسوسناک خبر نے ہر حساس دل کو رنجیدہ ، غمزدہ اور ہلا کر رکھ دیا ہے کہ کلفٹن میں سیلاب سے متاثرہ یتیم بچی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا دیا گیا . زیادتی کا واقعہ 2 روز پہلے کلفٹن بلاک 4 میں پیش آیا تھا، 8سے 9 سال کے عمر کی بچی جناح ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ پولیس سرجن آفس کے مطابق مکمل طبی معائنہ میں بچی سے اجتماعی زیادتی کی تصدیق ہوئی ہے۔ کراچی میں لگائے گئے سیلاب متاثرہ کیمپ میں بچی رہائش پذیر تھی۔
یہ خبر جب الیکٹرانک میڈیا پر چلی تو وزیر اعلیٰ سندھ کو بھی ہوش آیا، اب تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کمشنر کراچی سے واقعے کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ وزیراعلیٰ نے پولیس کو واقعے میں ملوث ملزمان کو فوری گرفتار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات ناقابل برداشت ہیں۔ انہوں نے ایڈیشنل آئی جی کو ہدایت کی کہ ملزمان کو فوری گرفتار کر کے رپورٹ دی جائے۔ وزیراعلیٰ نے صوبائی وزیر سماجی بہبود شہلا رضا کو بچی کو اپنی حفاظت میں لینےکی ہدایت کی ہے۔دریں اثنا ایڈیشنل آئی جی نے کہا کہ کراچی ضلع جنوبی سے خصوصی پولیس ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔ ملزمان تک رسائی کے لیے متاثرہ بچی کا ڈی این اے کرا رہے ہیں۔
یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ کراچی میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی بچی سیلاب متاثرہ بیوہ ماں کی بیٹی ہے۔بچی کی والدہ کا کہنا ہے کہ” میں بیوہ ہوں اور سیلاب کے باعث شکارپور سے 6 بچوں سمیت کراچی آئی ہوں۔مجھے میری بیٹی نے بتایا کہ ملزمان ہوٹل کے باہر کار میں زبردستی لے کر گئے، بچی کے مطابق ملزمان نے نا معلوم مقام پر زیادتی کا نشانہ بنایا”۔
پولیس کا کہنا ہے کہ 2 کار سوار ملزمان نے بچی کو اغوا کرکے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ بچی کو کل شام ساڑھے چھ بجے جناح ہسپتال لایا گیا، بچی کی والدہ اسے رکشہ میں لے کر جناح اسپتال پہنچی تھی، جناح ہسپتال نے ابتدائی طبی امداد کے بجائے بچی کو این آئی سی ایچ لےجانے کا کہا، بچی کی حالت دیکھتے ہوئے این آئی سی ایچ نے بچی کو دوبارہ جناح ہسپتال بھیجا، دوبارہ آنے پر بچی کو طبی
امداد دی گئی۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی کے حکم پر تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، کمیٹی کی سربراہی ایس ایس پی ساؤتھ کریں گے۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کمیٹی واقعے کی تحقیقات اور ملزمان کی نشاندہی کرے گی، تفتیش کے دوران اب تک 5 مشکوک افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ مرکزی ملزمان کی تلاش جاری ہے، انہیں جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
ابھی ایک روز قبل عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کہہ رہے تھے کہ” جبری گمشدگی ہمارے معاشرے کے چہرے پر بدنما داغ ہے۔ گمشدگی کا مسئلہ سیکیورٹی کے معاملات سے جڑا ہوا ہے، یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں بھی زیرِ بحث رہا”۔ جناب وفاقی وزیر قانون صاحب بچوں اور بچیوں سے اجتماعی زیادتیوں کی وارداتیں بڑھتی جا رہی ہیں ، ایسے واقعات ہیں معاشرے کے چہرے پر اصل بدنما داغ اور اصل جبر …ان واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کتنا غیر محفوظ اور اَن سیکیور ہو چکا ہے ، جہاں معصوم بچوں کی عزتیں محفوظ نہیں وہاں کچھ محفوظ نہیں رہ سکتا صرف پارلیمنٹ میں بحثیں ہونا کافی نہیں ، ہمارے معاشرے میں قانون کا کتنا احترام اور ڈر محسوس کیا جاتا ہے اس کا اندازہ شاہ رخ جتوئی کیس سے لگایا جا سکتا ہے .
جناب اب صرف تقریروں سے کام نہیں چلے گا ، ہو سکے تو ملک میں قانون سب کیلئے ایک جیسا اور سیکیورٹی سب کیلیے ایک جیسی بنا کر دکھائیں، ظالموں کو سرعام سزا دے کر دکھائیں، بیوہ ماں کو انصاف دے کر دکھائیں کیونکہ اس ایک واقعے نے کءی سوال کھڑے کر دیے ہیں ۔