متعلقہ

جمع

گوشت کھائیں ذہنی دباؤ کم کریں ، نئی تحقیق

Spread the love

لاہور ( ہیلتھ ڈیسک )کیا آپ جانتے ہیں کہ کہ گوشت کھانے والوں کی نسبت سبزی کھانے والوں میں ذہنی دباؤ کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ برازیل میں ہونے والی تحقیق کے مطابق جن لوگوں نے گوشت کھانا چھوڑا وہ لوگ گوشت کھانے والوں کے مقابلے میں تقریباً دگنے ذہنی دباؤ کا شکار تھے۔اس سے قبل بھی اس حوالے سے کی گئی تحقیقات کے اسی طرح کے نتائج سامنے آئے ہیں کہ صرف سبزی کھانے والے زیادہ ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔اس حوالے سے برطانیہ کی یونیورسٹی آف باتھ کے سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کے اعزازی ریسرچ ایسوسی ایٹ کرس برائنٹ کا خیال ہے کہ ڈپریشن کی وجوہات وہ نہیں ہیں جو ہم سوچتے ہیں۔ کوئی بھی اس تحقیق کے نتائج جاننے کے بعد فوری طور پر یہ سوچ سکتا ہے کہ شاید ڈپریشن کا تعلق غذائیت کی کمی سے ہے۔خوراک اور

صحت کے مسائل کو جوڑنا تو آسان ہے، لیکن ڈپریشن کی وجوہات گہری ہیں۔دوسری جانب جرنل آف ایفیکٹیو ڈس آرڈرز میں شائع ہونے والی نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ڈپریشن کا تعلق غذائیت کی کمی سے نہیں ہے۔برازیل میں ہونے والی تحقیق کے محققین نے تمام غذائی عوامل پر غور کیا جن میں کیلوریز، مائکرو نیوٹرینٹ اور پروٹین کی مقدار شامل ہے۔محققین کو گوشت کھانے والوں اور سبزی کھانے والوں کے درمیان کوئی خاص فرق نہیں ملا۔” جنگ ” کے مطابق محقیقین کا کہنا ہے کہ سبزی کھانے والوں کے زیادہ افسردہ ہونے کی ایک وجہ سماجی بے دخلی بھی ہو سکتی ہے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ تحقیق برازیل میں کی گئی جو ایک ایسا ملک ہے جہاں گوشت کھانا ثقافت کا ایک اہم حصّہ ہے اور زیادہ تر لوگ گوشت کھانے والے ہیں،اس لیے جو لوگ گوشت کھانا چھوڑتے ہیں انہیں اپنے معاشرے میں گھلنے ملنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ محقیقین کے مطابق صحت مند غذا کے لیے صحیح اختیارات تلاش کرنے میں ناکامی بھی ڈپریشن کا شکار ہونے کی وجہ بن سکتی ہے۔ یہ سوال کرنا ضروری ہے کہ کیا بھارت جیسے ممالک میں بھی یہی نتائج دیکھنے کو ملیں گے جہاں معاشرے میں سبزی کھانے والے لوگ زیادہ تعداد میں ہیں۔محقیقین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کا شکار لوگ جانور کو ذبح کرنے کی حقیقت کے بارے میں زیادہ حساس بھی ہو سکتے ہیں۔انہوں نے اس بات کو بھی نوٹس کیا کہ حالیہ تحقیق کا حصّہ بننے والے 14 ہزار افراد میں سے صرف 82 سبزی خور تھے جو تحقیق کے لیے منتخب کردہ تمام افراد کا 1 فیصد بھی نہیں ہیں۔