اسلام آباد ( وی او پی نیوز ) نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے جی ایچ کیو میں منعقدہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی سیکورٹی ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ فوج سیاست سے دور رہے گی، اور ساتھ ہی اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے ادارے کے وقار اور آئین کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، پارلیمنٹ چاہے تو وہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے قانون کو ختم کرنے کیلئے آزاد ہے کیونکہ قانون سازی فوج کا کام نہیں۔ فوج کا کام وفاقی حکومت کے ساتھ معلومات شیئر کرنا اور اس کے احکامات ماننا ہے، نہ کہ اسے ڈکٹیشن دینا۔
” جنگ “کے مطابق ورکشاپ خصوصی طور پر بلوچستان سے جڑے معاملات پر منعقد کی گئی تھی اسلئے شرکاء کی اکثریت کا تعلق بھی بلوچستان سے تھا۔ تاہم، سیاسی معاملات اور فوج کے کردار پر بھی بحث ہوئی۔ بلوچستان کے حوالے سے آرمی چیف کا کہنا تھا کہ وہ یہاں سے فوج کے کردار کو کم کرنے کی کوشش کریں گے۔
صحافی عمر چیمہ نے لکھا کہ کانفرنس میں شریک ایک مہمان نے جنرل عاصم منیر سے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کے بیان پر موقف معلوم کرنا چاہا کہ تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے اور وزیراعلیٰ پنجاب کی تبدیلی کے موقع پر جنرل (ر) باجوہ
نے انہیں پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کیلئے کہا تھا، ان سے پوچھا گیا کہ اگر فوج نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا تو ان کے پیش رو نے یہ سیاسی کردار کیوں ادا کیا۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ انہیں اس معاملے کا علم نہیں لہٰذا وہ اس دعوے پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے تاہم، فوج کا غیر سیاسی رہنے کا فیصلہ اٹل ہے۔
اگر یہ بات سچ مان بھی لی جائے کہ چوہدریوں کا دعویٰ درست ہے تو (آرمی چیف کا کہنا تھا کہ) تو انہوں نے آرمی چیف سے مشورہ مانگنے کی بجائے اپنا دماغ کیوں استعمال نہیں کیا۔ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا فیصلہ آرمی چیف کا اکیلا فیصلہ نہیں تھا، جو لوگ فوج کے کلچر کو جانتے ہیں وہ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ لوگ اپنی رائے کا اظہار کرنے میں آزاد ہیں اور کئی بار یہ رائے مختلف بھی ہو سکتی ہے تاہم، جب کوئی فیصلہ کر لیا جائے تو سب کو ’’اگر مگر‘‘ کے بغیر اس پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ جو لوگ مجھے جانتے ہیں وہ اس بات کی تائید کریں گے کہ میں نے ہمیشہ آئین کو مقدم سمجھا ہے اور بحیثیت آرمی چیف ایسا ہی کرتا رہوں گا۔ آئین کی بالادستی اور اپنے ادارے کے وقار پر کوئی سمجھوتا نہیں کروں گا، فوج کا کام کسی معاملے پر اپنی رائے پیش کرنا ہے اور فیصلہ کرنا وفاقی حکومت کا کام ہے پھر وہ جو چاہے درست سمجھے۔
“ڈیلی پاکستان ” کے مطابق کانفرنس میں شریک ایک مہمان نے آرمی چیف کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ باضابطہ اعلان ہونے سے قبل آرمی چیف کے تقرر کے معاملے پر بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ہو کہ اگر سینئر ترین کو ہی چیف مقرر کر دیا جائے جس طرح سینئر ترین جج کو چیف جسٹس مقرر کر دیا جاتا ہے۔ شریک مہمان نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 2019ء میں کی گئی اُس قانون سازی کو ختم نہیں کر دینا چاہئے جس کے تحت آرمی چیف کو عہدے میں توسیع دی گئی تھی۔
اس کا جواب دیتے ہوئے جنرل عاصم منیر نے کہا کہ یہ وفاقی حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے کہ اس قانون کو ختم کرے لہٰذا یہ مطالبہ اُن سے ہی کرنا چاہئے۔ ایک اور شریک مہمان نے اقبال کا شعر پڑھا (اے طائر لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی، جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی) اور سوال کیا کہ کیا یہ درست نہ ہوگا کہ پاکستان کی معیشت کو اسلامی طرز پر تشکیل دیا جائے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے جنرل عاصم منیرمنیر نے کہا کہ ایسا کرنے کیلئے، ہمیں اُس سطح پر آنا ہوگا جہاں ہم دنیا پر انحصار کرنے کی بجائے انہیں ڈکٹیشن دے سکیں۔