لاہور ( شاہ جی سے ) ” مشترکہ کاوشیں ” رنگ لے آئیں ،ایک روز قبل جو پیش گوئی ہم نے کی تھی وہ سچ ہو گئی ، متحدہ قومی موومنٹ یعنی ایم کیو ایم کے مختلف اور متعدد دھڑے پھر سے ایک ہو گئے . مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) متحدہ میں ضم ہوگئی، جبکہ بحالی کمیٹی کے فاروق ستار نے بھی اپنے ساتھیوں سمیت ایم کیو ایم میں شمولیت کا اعلان کردیا۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ مشترکہ کاوشیں رنگ لائی ہیں، مصطفیٰ کمال، فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں کا خیر مقدم کرتا ہوں۔خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ قوم میں مایوسی پیدا کرنے والوں کو آج مایوسی ہو رہی ہے، پاکستان بنایا تھا، اب پاکستان بچائیں گے۔ بار بار وضاحتیں نہیں دیں گے، ریاست مخالف
نعرے اور نعرے لگانے والے دونوں کو مسترد کر چکے ہیں۔ 2018 کے الیکشن میں کراچی سے ایم کیو ایم پاکستان کو ہرایا گیا، کراچی کے انجن کے ذریعے پاکستان کی ٹرین کو اس کی منزل تک پہنچائیں گے۔ آر ٹی ایس بیٹھتا رہا تو پاکستان کی جمہوریت بھی بیٹھ جائے گی، 2018 میں جو جیتے وہ حیران تھے، جنہوں نے جتوایا وہ پریشان ہوگئے۔ حلقہ بندیاں ٹھیک کرلیں، پھر چاہے کل ہی الیکشن کروالیں۔
پریس کانفرنس میں فاروق ستار نے کہا کہ وفاق اور صوبائی حکومت سے الگ ہوجانا چاہیے، جس پر خالد مقبول صدیقی نے فاروق ستار کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ پالیسی اسٹیٹمنٹ نہ دیں۔مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ آج تاریخی دن ہے، آج نہ سمجھ میں آنے والے فیصلے ہونے جارہے ہیں، الطاف حسین سے کوئی ذاتی لڑائی نہیں تھی، جو کچھ بٹتا تھا، سب کو ملتا تھا۔ کراچی کو “را “کے تسلط سے اس لیے آزاد نہیں کروایا کہ آصف زرداری کا اس پر تسلط ہو۔
انہوں نے کہا کہ کراچی پاکستان کو پالتا ہے، آج بھی پاکستان کو چلا سکتا ہے، پال سکتا ہے، اسٹیبلشمنٹ سے کہتا ہوں، کراچی کے نوجوانوں کو ایک بار مکمل معافی دی جائے۔ کوئی کورنگی کوئی سینٹرل ضلع پر قبضے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ ذرا سا شریف کیا ہوئے، پورا شہر ہی بدمعاش ہوگیا۔اس موقع پر ڈاکٹر فاروق ستار نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک متحرک اور منظم ایم کیو ایم شروع کرنے جا رہے ہیں۔ ایک ری برانڈڈ، ایک ریفارم ایم کیو ایم سامنے لا رہے ہیں۔ جنیوا سے 10 ارب ڈالرز ملنے پر خوش ہو رہے ہیں، کراچی کو موقع دیں، 10 ارب ڈالر تنہا کراچی کما کر دے سکتا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایم کیو ایم کی تقسیم زہر قاتل تھی، لکیر 23 اگست کو کھینچی گئی، تو ہم پر 22 اگست کا مقدمہ اب تک کیوں چل رہا ہے؟