تحریر : طیبہ بخاری
“کسی روز ملو ہمیں شام ڈھلے “۔۔۔
“جیا دھڑک دھڑک جائے “۔۔۔
“تیرے رنگ رنگ “۔۔۔
ان 3نغموں کے کئی رنگ کئی آہنگ ہیں بالکل اسی طرح اس کلام کے لکھنے والے کے بھی کئی رنگ تھے ،کیا کچھ نہیں تھے امجد اسلام امجد ۔۔۔ ڈرامہ نگار، شاعر، ناقد، گیت نگار، مدرس، کالم نویس۔۔۔یہ تمام خوبیاں ان کی شخصیت کا خاصا تھیں ۔۔۔۔ ادبی دنیا اداس ہے۔۔۔کیوں نہ ہو ، امجد صاحب اس دنیا کی رونق تھےاور ان کے الفاظ اس دنیا کا قیمتی سرمایہ ۔۔۔ وہ سرمایہ جو کبھی کم نہیں ہو گا ، جو ہمیشہ پڑھا اور یاد رکھا جائیگا ۔۔۔۔اب امجد اسلام امجد اس جہانِ فانی میں نہیں اپنے لفظوں کی کہانی میں ملیں گے ۔
خود کہا کرتے تھے
“اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا،
گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا،
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا،
میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گا،
اگر ستاروں میں اوس قطروں میں خوشبوؤں میں نہ پاؤ مجھ کو،
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا”۔
امجد صاحب آپ ضرور ملیں گے ۔۔۔بس “محبت ایسا دریا ہے ” لکھنے کے بعد آپ اس دریا کے پار چلے گئے۔۔
امجد صاحب اپنے آپ کو ادبی دنیا میں کس روپ میں دیکھنا چاہتے تھے ، کہا کرتے تھے ” میں تاریخ کے اوراق میں بطور شاعر زندہ رہنا چاہتا ہوں، میری شہرت ڈرامہ نگاری سے زیادہ ہوئی، مگر میں ایک شاعر کے طور پر یاد رہنا چاہتا ہوں کیونکہ شاعری اصل اور خالص ہے جو میرے اندر سے نمودار ہوتی ہے، مجھے بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ میں شاعری کیسے لکھ لیتا ہوں، یہ خود وارد ہوتی ہے، اس میں کوشش کا عمل دخل نہیں ہوتا اور یہی شاعری پھر احساسات کے اظہار کیساتھ ساتھ کتھارسز کا باعث بھی بنتی ہے”۔
سینئر اور لیجنڈری شاعر، مصنف، میزبان انور مقصود جنکا امجد اسلام امجد سےٹی وی پر 50 برسوں کا ساتھ تھا، دونوں میں گہری دوستی بھی تھی، کہتے ہیں” امجد اس لائق تھے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی تعریف کی جائے اور ایسے لوگوں کے جانے کا دکھ نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ یہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ انہوں نے ملک کے حالات پر ہمیشہ کسی بھی دباؤ میں آئے بغیر بات کی۔ جب ملک کے حالات ایسے ہوں تو سب سے پہلے پڑھے لکھے لوگ چلے جاتے ہیں”۔
ہم ایک اور باوقار علمی ادبی اور ہر دلعزیز شخصیت سے بچھڑ گٗئے، اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ ان کی لکھی نظم “سیلف میڈ لوگوں کا المیہ ” ہم جیسے کروڑوں لوگوں کا المیہ ہے ، ملاحظہ کیجئے
“روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے
زندگی کے رستے میں بچھنے والے کانٹوں کو
راہ سے ہٹانے میں
ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں
خوشبوئیں پکڑنے میں گلستاں سجانے میں
عمر کاٹ دیتے ہیں
عمر کاٹ دیتے ہیں
اور اپنے حصے کے پھول بانٹ دیتے ہیں
کیسی کیسی خواہش کو قتل کرتے جاتے ہیں
درگزر کے گلشن میں ابر بن کے رہتے ہیں
صبر کے سمندر میں کشتیاں چلاتے ہیں
یہ نہیں کہ ان کو اس روز و شب کی کاہش کا
کچھ صلہ نہیں ملتا
مرنے والی آسوں کا خوں بہا نہیں ملتا
زندگی کے دامن میں جس قدر بھی خوشیاں ہیں
سب ہی ہاتھ آتی ہیں
سب ہی مل بھی جاتی ہیں
وقت پر نہیں ملتیں وقت پر نہیں آتیں
یعنی ان کو محنت کا اجر مل تو جاتا ہے
لیکن اس طرح جیسے
قرض کی رقم کوئی قسط قسط ہو جائے
اصل جو عبارت ہو پس نوشت ہو جائے
فصل گل کے آخر میں پھول ان کے کھلتے ہیں
ان کے صحن میں سورج دیر میں نکلتے ہیں “
اللہ حافظ امجد صاحب ۔۔۔ادبی دنیا میں آپ ابر بن کر رہیں گے ۔۔۔۔آپ کے الفاظ پھول بانٹتے رہیں گے ۔۔۔خوشبو پھیلاتے رہیں گے ۔۔۔۔روشنی مزاج آپ کو پڑھتے رہیں گے ۔۔۔اور آخر میں “اگر میری یاد آئے ” کے جواب میں بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ آپ کو بھلایا نہیں جا سکتا ، آپ بہت بہت یاد آئیں گے۔
Like this:
Like Loading...