لاہور ( وی او پی نیوز ) معروف بھارتی مصنف، منظر نگار اور شاعر جاوید اختر لاہور میں جاری فیض فیسٹیول کے ساتویں ایڈیشن میں شرکت کرنے کے لیے پاکستان آئے ہوئے ہیں ۔ ایک نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے وہ بات کہہ دی جو امن پسند شدت سے سننا چاہ رہے تھے یا سننے کو ترس رہے تھے ۔ جاوید اختر نے کہا کہ پاکستان اور بھارت میں ایسے لوگ ہیں جو امن چاہتے ہیں، عوام کا فرض بنتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پر پریشر بنائے رکھیں، ہم کوششیں کرتے ہیں لیکن کوئی ایک واقعہ سارے کام پر پانی پھیر دیتا ہے۔ برصغیر کی تاریخ ہزاروں برس پر محیط ہے، پرانی تاریخ کے سبب یہاں کے لوگوں کا شعور بھی زیادہ ہے، نقشہ اٹھا کر دیکھیں، ملک اکیلے آگے نہیں جاتے، خطے آگے جاتے ہیں، وہ محبت محبت ہی نہیں جس میں دوستی نہ ہو بھارت میں آج بھی لوگ
فیض احمد فیض اور اردو دونوں سے محبت کرتے ہیں۔ فیض احمد فیض کی شاعری میں ایک جادو ہے اور یہ جادو جہاں بھی جائے گا اپنا اثر دکھائے گا۔ دنیا میں جہاں بھی اردو اور ہندی جاننے اور سمجھنے والے لوگ موجود ہیں وہاں فیض کی شاعری سے لوگوں کو محبت ہے۔بھارت میں جتنی ہندی زبان میں شاعری مقبول ہے اتنی ہی اردو زبان میں بھی مقبول ہے اور کمال یہ ہے کہ اگر بھارت میں لوگوں کو اردو شاعری کے کچھ لفظ نہ بھی سمجھ آئیں تو بھی ان میں نغمگی اتنی ہے کہ وہ لوگوں کو اچھے لگتے ہیں اور لوگ ان کے ہندی میں معنی تلاش کرنے لگتے ہیں۔جاوید اختر کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت میں لوگوں نے آج تک نہ اردو کو چھوڑا ہے اور نہ ہی فیض کو، وہاں فیض احمد فیض سے محبت آج بھی برقرار ہے۔
جاوید اختر نے کہا ہے کہ جیل کوئی خوبصورت جگہ نہیں لیکن فیض کی شاعری پڑھ کر دل کرتا ہے کہ جیل جاؤں۔لاہور اور امرتسر کا فاصلہ 30 کلومیٹر ہے لیکن دونوں ملکوں میں لاعلمی حیرت انگیز ہے، لاہور میں بیٹھی لڑکیوں کو نہیں معلوم کہ کچھ پنجابی ہندو بھی ہیں، ایسا ہی وہاں بھی ہے۔ مواصلات کی بندش دونوں طرف ہے شاید آپ کے ہاں تھوڑی زیادہ ہے، ہم نے مہدی حسن اور نصرت کے بڑے فنکشن کیے، آپ کے ہاں تو لتا منگیشکر کے کوئی فنکشن نہیں ہوئے۔ لاہور میں عمدہ لوگ ہیں، یہاں محافل کمال ہوتی ہیں، آئندہ کبھی بلائیں تو ایک ہفتے کے لیے بلائیں، 3 روز میں میرا کام نہیں بنتا۔ لاہور میں لوگ اچھے لگنے لگتے ہیں کہ واپس جانے کا وقت ہو جاتا ہے، فیض کی شاعری میں چاندنی والی خوبی ہے، چاندنی جہاں گرے منظر خوبصورت کر دیتی ہے۔