تحریر :رائے مزمل حسین مہدی
بطورمسلمان ہم سب سے پہلے خالق اکبر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں اور ”لا الہ الا اللہ“ کے کلمہ کا اقرار کر کے توحید پرست ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کرتے ہیں ۔ ہر مسلمان کوشش کرتا ہے کہ وہ دوسروں سے بہتر موحد نظرآئے۔مگر دنیا بھر کے مواحدین کو یہ بھی سوچنا ہو گا کہ زمانے میں جو پانچ وقت اللہ اکبر کی صدا بلند ہو رہی ہے۔ یہ صدا جاری رکھنے اور رہنے کا سب سے بڑا سبب امام حسینؓ ہیں۔ امام حسینؓ نے میدان کربلا میں شب عاشور اپنے جگر گوشہ نور نظر ہمشکل مصطفیٰ شہزادہ علی اکبر سے جو اذان فجر دلوائی یہ اس اذان کا ہی کرم ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہو رہی ہے۔
فجر عاشور کو اذان اور سجدہ حسینؓ نے اذان اور نما زکو دوام عطا کیا اسی لیے امام حسینؓ کو محسن توحید کہتے ہیں ہم تمام مسلمان لا الہ الا اللہ کے اقرار کے بعد اولاد آدم سے اپنے آپ کو ممتاز کرتے ہوئے محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلمہ کا اقرار کرتے ہیں ۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے والا جانتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 10 ہجری کو دنیا سے ظاہری پردہ کرنے کا فیصلہ کیا تو ٹھیک 51 سال بعد یعنی 61ہجری میں ہی شریعت محمدی
کے خلاف کام شروع کر دئیے گئے تھے، رسولؐ اللہ کے حلال کردہ احکامات کو حرام اور حرام کردہ احکامات کو حلال کرنا شروع کر دیا گیاتھا ۔
طاقت اور حکومت کے نشے میں شریعت محمدی کو پامال کیا جا رہا تھا کہ ان حالات میں نگہبان رسالت حضرت ابوطالبؓ کے پوتے حیدر کرار ابن ابو طالبؓ کے بیٹے امام حسینؓ نے تحفظ شریعت محمدی و باعث تکمیل دین ولایت مولا امیر المومنینؓ کے تحفظ کے لیے علم جہاد بلند کیا اور دنیا کو بتا دیا کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبین ہیں سید المرسلین ہیں وجہہ تخلیق کائنات ہیں۔ امام حسینؓ نے یوم عاشور اپنے سجدہ مطلق کی کاری ضر ب سے تمام سازشیں تباہ و برباد کر دیں ۔ توحید ، رسالت اور امامت و ولایت کو بقا ءعطا کرتے ہوئے قیامت تک کے لیے صراط مستقیم کو قائم کر دیا۔
امام حسینؓ نے توحید و رسالت اور امامت و ولایت کو بقا ءعطا کرنے کےساتھ ساتھ دین اسلام کے شعائر جن کو قرآن میں شعائر اللہ کہا گیا کو بھی دائمی بقا ءعطا کی ۔ ان شعائر اللہ میں سب سے معتبر خانہ کعبہ بیت اللہ ہے جہاں ہرسال مسلمان اکٹھے ہو کر حج ادا کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔60 ہجری کے ایام ادائیگی حج میں جب مولا حسینؓ حج ادا کرنے کے لیے مکہ مکرمہ میں موجود تھے اور بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے تو آپؓ نے دیکھا کہ حکومت کے کچھ گماشتے احرام کے نیچے تلواریں چھپائے ہوئے ہیں ۔ امت مسلمہ کو سوچنا چاہیے کہ اگر یہ سازش کامیاب ہو جاتی تو حرمت کعبہ ہی پامال ہو جاتی ۔ امام حسینؓ نے حرمت کعبہ بچانے کے لیے حج کو عمرہ میں تبدیل کر دیا اورصحن کعبہ سے نکل گئے۔آج جو کعبہ کی رونقیں بحال ہیں تو یہ امام حسینؓ کے مدبرانہ اور جرأت مندانہ فیصلے کی بدولت ہیں ۔
نوک نیزہ پر امام حسینؓ نے تلاوت قرآن پاک کی صدا بلند کرکے دنیا پر آشکار کیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو وصیت کرتے ہوئے
جو فرمایا ” میں تم میں دو گراں قدر چیزیں اللہ کی کتاب (قرآن پاک) اور اپنے عترتِ اہل بیتؓ کو چھوڑ کر جا رہا ہوں ان سے تمسک رکھناتاکہ تم گمراہ نہ ہو جاﺅ“ ۔
امام حسینؓ نے عترت اہل بیت ؓہوتے ہوئے نوک نیزہ پر قرآن پاک کی تلاوت کر کے دنیا کو بتا دیا کہ قرآن و اہل بیتؓ کبھی بھی جدا نہیں ہوں گے۔سرکش لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ اللہ نے اپنے رسول اکرمؐ کی زبان سے امت مسلمہ کی ہدایت کا جو بندوبست کیا وہ دائمی ہے۔
امام حسینؓ نے دین اسلام اور انسانیت پر اتنے احسانات کیے ہیں جن کا شمار مشکل ہے ۔ میں اپنے اس مضمون کے آخر میں یہی لکھ سکتا ہوں کہ امام حسینؓ محسن اعظم ہیں ، محسن توحید ، محسن رسالت ، محسن امامت، محسن ولایت ہیں ۔
اگر ہم انسانی زندگی میں بھی غور کریں تو ایک مدبر انسان کے لیے شرم و حیا کا حاصل ہونا ناگزیر ہوتا ہے ۔ مؤرخ اسے ہی باضمیر لکھتے ہیں جو باحیا ہو اور اس کے کردار میں غیرت و حیاچھلکتی نظر آئے۔دنیا کا ہر با ضمیر انسان امام حسینؓ کو سلام کرنے پر مجبور ہے کیونکہ انسان کو غیرت مند بنانے کا جو درس امام حسینؓ نے دیا ہے وہ کسی اور نے نہیں دیا ۔ انسان کے ضمیر کو امام حسینؓ نے کیسے زندگی عطا کی اس بارے میں بابا گورونانک کی اور ان کے ایک چیلے کی گفتگو کو یہاں نقل کر رہا ہوں ۔ باباگورونانک نے اپنی گرنتھ میں بھی لکھا
جگت گورو حسینؓ ایسا گورو نہ کو
ایسی مرنی مر گیا جو سنے تب رو