ایک چھوٹا مسافر طیارہ تباہ ھو گیا۔ طیارے میں سوار ایک بندر کے علاوہ تمام مسافر جاں بحق ھو گئے۔
حادثے کی تحقیقات ھوئیں،
بلیک باکس سے معلومات اکٹھی کی گئیں تاھم جہاز تباہ ھونے کی وجوہات کا پتہ نہ چلایا جا سکا۔
تھک ہار کے اس نتیجے پہ پہنچا گیا کہ بندر کو train
کرکے اس قابل بنایا جائے کہ وہ تحقیقاتی کمیٹی کی مدد کرسکے۔
چند ھفتوں کی تگ و دو کے بعد بندر اس قابل ھو گیا کہ اشاروں کی زبان میں کسی بھی سوال کا جواب دے سکے۔
تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے بندر کو پیش کیا گیا۔
ایک آفیسر نے بندر سے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے اشاروں میں پوچھا کہ جب جہاز
تباہ ھوا تو مسافر کیا کر رھے تھے؟
اشاروں میں جواب ملا کہ کچھ سو رھے تھے، کچھ بات چیت میں مصروف تھےاور کچھ میگزین وغیرہ پڑھ رھے تھے۔
کمیٹی کے اراکین کا حوصلہ بندھا۔
دوسرا سوال ھوا کہ ائیر ھوسٹس کیا کر رہی تھیں۔
وہ میک اپ میں مصروف تھیں۔
کمیٹی کے اراکین نے معنی خیز نظروں سے ایک
دوسرے کو دیکھا۔
ایک اور سوال ھوا۔۔
جہاز تباہ ہونے سے پہلے پائلٹ کیا کر رھےتھے؟
جواب ملا وہ سو رھے تھے۔۔
تمام اراکین ششدر رہ گئے۔۔
کچھ لمحوں بعد ایک اور سوال ھوا۔
آپ اس وقت کیا کر رھے تھے؟
بندر نے فخریہ انداز سے میز پہ پڑی عینک اٹھا کر پہنی، چہرے پر کلر سمائل بکھیری اور دبنگ انداز
میں جواب دیا کہ
“میں اس وقت جہاز چلا رہا تھا”
ہمارے ملک میں کیا کچھ ہو رہا ہے اور کون کیا کر رہا ہے ، آپ سمجھ تو گئے ہونگے
نوٹ : ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں