اسلام آباد (نیوز ڈیسک) 80فیصد آئی پی پیز کن کی ملکیت ہیں۔۔۔؟ اس حوالے سے تہلکہ خیز انکشافات سامنے آ ئے ہیں ۔
تفصیلات کے مطابق آئی پی پیز کے ساتھ بلاشبہ ساورن ایگریمنٹ ہے‘ لیکن وہ یہ بات قوم کو بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت کی زیر ملکیتی 52فیصد انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کام کر رہی ہیں اور پاکستان کے نجی شعبہ کی زیرملکیت صرف 28فیصد آئی پی پیز ہیں لہٰذا 80فیصد آئی پی پیز پاکستانیوں کی زیرملکیت ہیں۔ 20فیصد اگر غیرملکی آئی پی پیز ہیں تو حکومت بعد میں کرپٹ معاہدوں پر نظر ثانی کروا لے لیکن 52فیصد حکومت کے زیر ملکیتی اور 28فیصد نجی شعبے کی ملکیت آئی پی پیز کے ساتھ بجلی کی خریداری اور ادائیگی کے معاہدوں پر نظر ثانی کر کے قوم کو 60روپے فی یونٹ تک بجلی کی خریداری سے بچا سکتی ہے۔حکومت کا آئی پی پیز سے 750‘ کول 200‘ ہوا اور سولر سے 50ارب تک بجلی خریدنا لمحہ فکریہ ہے ۔یہ بات نگران دور کے سابق وفاقی وزیر تجارت‘ صنعت و پیداوار ڈاکٹر گوہر اعجاز نے ملکی میڈیا کے ذریعے قوم کو بتائی۔
جنگ” سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت خصوصی ایکشن لیکر آئی پی پیز کیساتھ معاہدوں سے کپیسٹی چارجز کی شق نکلوا سکتی ہے کپیسٹی چارجز ختم کرا کر حکومت تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس 10فیصدکم کر سکتی ہے تمام آئی پی پیز کا ڈیٹا معلومات جس میں ہر ایک کو ادا کی گئی رقم اور ہر آئی پی پی سے قوم کو فی یونٹ بجلی کی فراہمی کی لاگت شامل ہے‘ اب ہمارے پاس دستیاب ہے۔ یہ سب آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں ’’کپیسٹی‘‘ کی ادائیگی کی شق کی وجہ سے ہے جو پلانٹس کو منافع خوری کی اجازت دیتی ہے‘ جس کے نتیجے میں آئی پی پیز کو بغیر بجلی پیدا کئے کپیسٹی چارجز کی مد میں ہوشرباء ادائیگی کی جا رہی ہے۔
جب اُن سے اس کا حل پوچھا گیا تو سابق نگران وفاقی وزیر تجارت‘ صنعت و پیداوار اور آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر گوہر اعجاز نے کہا کہ اس کا حل آئی پی پیز کو ’’کوئی کپیسٹی کی ادائیگی‘‘ نہ کرنے میں ہے‘ صرف سستی بجلی فراہم کرنے والوں سے بجلی کی خریداری کیلئے ادائیگی کی جائے‘ تمام آئی پی پیز کو کسی دوسرے بزنس کی طرح تجارتی پلانٹس کی طرح تصور کیا جائے۔ 52فیصد آئی پی پیز حکومت کی ملکیت ہیں جبکہ پرائیویٹ سیکٹر کے پاس صرف 28فیصد آئی پی پیز ہیں لہٰذا 80فیصد پاکستانیوں کے زیر کنٹرول ہیں جو ہمیں آٹھ دس روپے والی بجلی 60روپے فی یونٹ گھریلو‘ تجارتی‘ صنعتی صارفین کو بیچی جا رہی ہے۔ آئی پی پیز کے صرف ان بدعنوان معاہدوں‘ بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے دس بارہ روپے والی بجلی 60روپے فی یونٹ کے حساب سے پاکستان میں فروخت ہو رہی ہے۔ سب کو اپنے ملک کو بچانے کیلئے ان آئی پی پیز کپیسٹی چارجز معاہدوں کیخلاف کھڑا ہونا چاہئے جو ملک کے کم و بیش 40خاندانوں کو منافع دے رہے ہیں۔
سابق نگران وفاقی وزیر نے کہا کہ اللہ کی پناہ صرف ایک پرائیویٹ آئی پی پی کمپنی کو ایک سال میں کپیسٹی چارجز شپ کی وجہ سے 200ارب روپے کی ادائیگی ہوئی۔ کسی کو 50ارب روپے کی ادائیگی ہوئی تو کسی کو 20ارب اور بہت سے ملکی گروپوں کو 10‘ 10ارب روپے کی ادائیگی کپیسٹی چارجز کی وجہ سے کی جا رہی ہے۔ بجلی کے گھریلو صارفین کو 50ہزار‘ 20ہزار‘ 10ہزار روپے ماہانہ تک کے مہنگے ترین بجلی کے بل دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اب تو متوسط گھریلو صارفین بھی بجلی کے بل دینے کی سکت نہیں رکھتے۔
سابق نگران وفاقی وزیر نے کہا کہ میرے پاس آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے ’’کرپٹ معاہدوں‘‘ کی مکمل تفاصیل اور سچائی پر مبنی ڈیٹا ہے۔ میں نے قوم کو یہ بتا دیا ہے‘ اب میں پاکستان کے آنرایبل فرزندوں پر چھوڑتا ہوں کہ وہ کرپٹ آئی پی پیز مافیا سے غریب پاکستانی کو محفوظ بنائیں۔
ڈاکٹر گوہر اعجاز یہ بات زور دیکر کہی کہ حکومت بعض آئی پی پیز پلانٹس سے 750روپے فی یونٹ تک بجلی خرید کر ادائیگی کر رہی ہے اور اس کا سارا بوجھ گھریلو‘ تجارتی‘ صنعتی صارفین پر ڈالا جا رہا ہے۔ وہ قوم کے ساتھ آئی پی پیز کے حوالے سے معلومات شیئر کر رہے ہیں‘ یہ معلومات ہماری ٹیم نے پچھلے سال کے دوران فیول کی لاگت‘ کپیسٹی کی ادائیگیوں اور ہر آئی پی پیز کو ادا کئے جانے والے فی یونٹ خرچ کا جائزہ لیتے ہوئے حاصل کیں۔