متعلقہ

جمع

کیا ماضی کی متحدہ اپوزیشن مستقبل کی” متحدہ حکومت ” رہ سکے گی ؟وزیر اعظم کو کم وقت میں‌زیادہ پرفارمنس اوربیک وقت کئی افراد کو” خوش ” رکھنا پڑیگا

Spread the love

لاہور ( طیبہ بخاری سے ) ملک میں سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے ، کوئی کسی سے منحرف ہو رہا ہے تو کوئی اتحاد تبدیل کر رہا یا کروا رہا ہے یا کروا چکا ہے. گیم تو ابھی آن ہوئی ہے ابھی سے نتائج کی توقع رکھنا عبث ہو گا لیکن کیا کریں سیاست ہے ہی ایسی شے کا نام جس کے سینے میں دل نہیں ہوتا ، اس بے رحم نے ابھی سے اپنے رنگ ڈھنگ دکھانے شروع کر دئیے ہیں . پہلی مرتبہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھنے والے شہباز شریف کو “ہنی مون پیریڈ ” بھی نصیب نہیں ہوا . وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کم وقت میں زیادہ پرفارمنس دکھانی ہے ، کچھ نہیں بہت کچھ کر دکھانا ہے اسی لئے وفاقی دارالحکومت کی حد تک بیوروکریسی میں تبادلوں کی “بوچھاڑ ” کر دی ، ہفتے کی چھٹی ختم کر دی ، اوقات کار میں تبدیلی کر دی ، لیکن یہاں چھٹی ختم کرنے سے کام نہیں

بنے گا “چھٹی ” کروانا پڑے گی. ہم بیوروکریسی کی چھٹی نہیں مسائل کی چھٹی کروانے کی بات کر رہے ہیں . وفاق میں کسی نہ کسی طرح متحدہ اپوزیشن اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے لیکن ابھی تک نئے سپیکر، ڈپٹی سپیکر ، وفاقی کابینہ اور صدر کے عہدوں‌کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا . تبصروں‌اور تنقیدوں‌کے گھوڑے دوڑانے والے بھی یہ پیشگوئی نہیں کر سکتے کہ ماضی کی متحدہ اپوزیشن جو اب موجودہ حکومت ہے مستقبل میں بھی” متحدہ ” رہ سکے گی یا نہیں جبکہ وفاقی دارالحکومت سے سیاسی اختلافات کی خبریں ابھی سے آنا شروع ہو گئی ہیں . کوئی ایک جماعت جس عہدے میں‌دلچسپی رکھتی ہے تو دوسری جماعت بھی وزیر اعظم سے وہی عہدہ مانگ رہی ہے . وزیر اعظم کو ایک ہی وقت میں عوام کیساتھ ساتھ کئی افراد کو” خوش ” رکھنا ہو گا، کپتان میدان میں اتر چکے ہیں وہ پہلے سے عوام میں‌ ہیں‌اور عوام کا فیصلہ چاہتے ہیں اب وہ مکمل آزاد ہیں قومی اسمبلی سے استعفی بھی دے چکے ان کے پاس وقت ہی وقت ہے وہ اپنا زیادہ تر وقت عوام کے اندر گزاریں گے ، یہی وجہ ہے کہ انہوں‌نے جلسوں‌کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے . ہر شہر میں جلسے کی تاریخوں کا اعلان کیا جا رہا ہے ،تاریخیں بدلی بھی جا رہی ہیں وہ انتخابات کیلئے عجلت میں ہیں اور وقت کا بہترین استعمال کرنا چاہتے ہیں . جبکہ دوسری جانب نئی حکومت ابھی تشکیل کے مرحلے میں پھنسی ہوئی ہے ، تجزیوں کی حد تک نئے وفاقی وزراکے نام تو سامنے آ رہے ہیں لیکن

وزیروں کی کرسیوں پر بیٹھنے والے دور دور تک نظر نہیں آ رہے . عوام کو اپنے معاملات کے حل ہونے کا شدت سے انتظار ہے وہ چاہتے ہیں کہ انہیں فوری ریلیف دیا جائے، شہباز شریف صاحب نے بطور خادم پاکستان اپنی پہلی تقریر میں ہی بجٹ والی رعایتیں دے ڈالی ہیں ، احکامات بھی جاری کر دئیے ہیں‌اب آئندہ بجٹ میں وہ مزید کیا عوام کو دیں گے اس کے بارے میں ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا . صوبہ سندھ میں مسلم لیگ ( ن) بہت نحیف ہو چکی ہے وزیر اعظم نے سندھ کا ایک روزہ دورہ بھی کیا . کراچی جاتے ہوئے انہوں نے فلائیٹ میں بھی میٹنگز کا سلسلہ جاری رکھا اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اتحادیوں کو “خوش ” کریں گے یا اپنی جماعت کی مضبوطی کیلئے” کچھ “کریں گے . دوسری جانب عمران خان کے حمایتی کراچی میں اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ چند روز قبل کر چکے ہیں .
پنجاب میں بھی سیاسی حالات کروٹ بدلنے والے ہیں ، حمزہ شہباز اور عبدالعلیم خان کے جھگڑے کی خبریں منظر عام پر آ چکی ہیں اگلے ہی روز تردید بھی آ گئی لیکن دال میں کچھ کالا ضرور ہے اور جانے کا نام ہی نہیں لے رہا . اسی پس منظر میں ترجمان سپیکر پنجاب اسمبلی فیاض چوہان نے سابق سینئر صوبائی وزیر پنجاب و پی ٹی آئی کے منحرف رکن علیم خان کو پارٹی میں واپسی کی دعوت دے دی۔فیاض چوہان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ” ابھی بھی وقت ہے آپ واپس آ جائیں، آپ جچتے ہی پی ٹی آئی میں ہیں۔ حمزہ اور علیم خان کے درمیان جھگڑا ہوا ہے، میری ہمدری علیم خان کی طرف ہے۔”
صوبہ سندھ میں جون میں بلدیاتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں ، خٰبر پختونخوا میں تحریک انصاف کامیابی اپنے نام کر چکی ہے ، آزاد کشمیر میں بھی سیاسی بھونچال کی خبریں ہیں ، نواز شریف اور اسحاق ڈار کی وطن واپسی کی راہ بھی” ہموار “کرنی ہے، وطن واپسی کے بعد نواز شریف کا مسکن جیل ہے یا جاتی امرا اس کا فیصلہ بھی ہونا ہے . خادم پاکستان کو اپنے کیس بھی نمٹانے ہیں اور اپنے خاندان کے بھی ، انہیں دم دم کڑے مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس وقت بہت کم ہے اور مقابلہ سخت ……..