پشاور ( ایس ایم ایس )خیبر پختونخوا اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کیسے ہوئی ، علی امین گنڈا پور نے کیا دھمکی دیدی؟ اندرونی کہانی سامنے آ گئی۔تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخوا اسمبلی میں حکومتی رکن نیک محمد داوڑ اور پی ٹی آئی پی کے رکن اسمبلی اقبال وزیر کے درمیان تکرار ہوئی اور دونوں کے درمیان نازیبا جملوں کا تبادلہ ہوا۔ اس کے بعد دونوں ارکان اسمبلی کے گیلریوں میں موجود حامی آپے سے باہر ہوگئے۔ ایک دوسرے سے الجھ پڑے لاتوں اور مُکوں کا آزادانہ استعمال ہوا۔ ایوان مچھلی بازار بن گیا۔
خیبر پختونخوا اسمبلی اجلاس میں شمالی وزیرستان سے منتخب ممبران اسمبلی کے درمیان ہنگامہ آرائی ہوئی۔ پی ٹی آئی پی کے رکن اسمبلی اقبال وزیر اور معاون خصوصی نیک محمد نے ایک دوسرے کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال کیا۔دونوں کے رشتہ دار اور کارکنان آپس میں گھتم گھتا ہوئے اور لاتوں مُکوں کا آزادانہ استعمال بھی کیا۔
وزیر اعلی علی امین گنڈاپور کی تقریر کے بعد اپوزیشن ممبران نے اسپیکر سے بات کرنے کا وقت مانگا۔ بات کرنے کا موقع نہ ملنے پر احتجاج شروع کیا تو اسپیکر نے 15 منٹ کے لئے وقفہ کیا۔اس دوران پی ٹی آئی پی کے رکن اسمبلی اقبال وزیر اور وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے ریلیف کے درمیان تکرار شروع ہوئی تو گیلری میں موجود اراکین کے رشتہ دار اور حامی ایک دوسرے سے الجھ پڑے۔
اسمبلی کے سیکیورٹی اہلکاروں نے 3 کارکنان کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا جنہیں بعد میں چھوڑ دیا گیا۔گذشتہ روز ایوان میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اقبال وزیر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان پر الزامات بھی لگائے تھے۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھائی کی دھمکی دے دی۔خیبر پختونخوا اسمبلی اجلاس سے خطاب میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد کو نہ ہٹایا تو ہم اسے ہٹانے کےلیے اسلام آباد پر دھاوا بول دیں گے۔انہوں نے اسمبلی فلور سے پیغام دیا کہ تیار ہوجاؤ، ہم پھر اسلام آباد آرہے ہیں، ہمارے جتننے بھی کارکن گرفتار ہیں انہیں رہا کرائیں گے۔ بانی پی ٹی آئی نے واضح طور پر کہا تھا کہ ہماری فوج سے نہ کوئی لڑائی ہے اور نہ ہی کوئی فوج مخالف ایجنڈا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جلسے کی اجازت نہ ملنے پر مجبوری میں احتجاج کا راستہ اختیار کیا، ہمیں جلسوں کےلیے ایسی جگہیں دی گئیں، جسے ہم جانور ہوں۔
علی امین گنڈاپور نے یہ بھی کہا کہ کے پی ہاؤس پر پولیس اور رینجرز نے دھاوا بولا، وہاں موجود ہمارے اہلکاروں اور کارکنوں پر تشدد کیا گیا۔ مجھے انداز ہوگیا تھا میری گرفتاری وقار کے ساتھ نہیں ہوگی، میں نے فیصلہ کیا کہ کے پی ہاؤس جاکر احتجاج سے متعلق فیصلہ کرتے ہیں۔ جب کے پی ہاؤس سے نکلا تو میرے پاس نہ موبائل تھا نہ جیب میں ایک روپیہ، میرے اپنے صوبے کے ایک ڈی پی او نے کہا وہ مجھے پشاور پہنچانے کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میری نوکری چلی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ اس ملک کے فیصلے کر رہے ہیں انہیں ملک کا کوئی خیال نہیں ہے، جو بھی نظریے سے منافق ہے اللّٰہ اسے غرق کرے، قوم کسی کی باتوں میں نہ آئے، فرعون بھی یہی سمجھتا تھا کہ میں ہی طاقتور ہوں، ایسے طاقتوروں کا کیا انجام ہوا؟