بیٹی شادی کے بعد سسرال جاتی ھے تب پرائی نہیں لگتی
مگر
جب وہ میکے آکر ہاتھ منہ دھونے کے بعد سامنے ٹنگے ٹاول کے بجائے اپنے بیگ سے مختصر رومال سے منہ پونچھتی ھے تب وہ پرائی لگتی ھے
جب وہ باورچی خانے کے دروازے پر نامعلوم سی کھڑی ھو جاتی ھےتب وہ پرائی لگتی ھے
جب وہ پانی کے گلاس کے لئے ادھر ادھر آنکھیں گھماتی ھےتب وہ پرائی لگتی ھے
جب وہ پوچھتی ھے واشنگ مشین چلاؤں کیا تب وہ پرائی لگتی ھے
جب میز پر کھانا لگنے کے بعد بھی برتن کھول کر نہیں دیکھتی توتب وہ پرائی لگتی ھے
جب پیسے گنتے وقت اپنی نظریں چراتی ھے تب وہ پرائی لگتی ھے
جب بات بات پر غیر ضروری قہقہے لگا کر خوش ھونے کا ڈرامہ کرتی ھے تب وہ پرائی لگتی ھےاور لوٹتے وقت اب کب آئے گی’ کے جواب میں ‘دیکھیں کب آنا ھوتا ھے’یہ جواب دیتی ھے
تب ھمیشہ کے لئے پرائی ھو گئی ایسے لگتی ھے
لیکن گاڑی میں بیٹھنے کے بعدجب وہ چپکے سےاپنی آنکھیں چھپا کے خشک کرنے کی کوشش کرتی ھے تووہ پراياپن ایک جھٹکے میں بہہ جاتا ھے،
تب وہ پرائی سی لگتی ھے
کچھ نہیں چاہئیےمیرا میكا سجائے رکھنا
کچھ نہ دینا مجھےصرف محبت برقرار رکھنا
پاپا کے اس گھر میں میری یاد بسائے رکھنا
بچوں کے ذہنوں میں میرامان برقرار رکھنا
بیٹی ھوں ہمیشہ اسی گھر کی یہ اعزاز سجائے رکھنا.
بیٹی سے ماں تک کا سفر
بےفكری سے فکر کا سفر
رونے سے خاموش کرانے کا سفر
پہلے جو آنچل میں چھپ جایا کرتی تھی آج کسی کو آنچل میں چھپا لیتی ہے.
پہلے جو انگلی پہ گرم لگنے سے گھر کو سر پہ اٹھایا کرتی تھی.
آج ہاتھ جل جانے پر بھی کھانا بنایا کرتی ہے
پہلے جو چھوٹی چھوٹی باتوں پہ رو جایا کرتی تھی
آج وہ لاڈلی بڑی بڑی باتوں کو ذہن میں چھپایا کرتی ہے
پہلے بھائی ، دوستوں سے لڑ لیا کرتی تھی
آج ان سے بات کرنے کو بھی ترس جاتی ہیں
ماں، ماں کہہ کر پورے گھر میں کھیلا کرتی تھی
آج ماں سن کے آہستہ سے مسکرایا کرتی ہے
دس بجے اٹھنے پر بھی جلدی اٹھ جانا ہوتا تھا
آج 7 بجے اٹھنے پر بھی لیٹ ھو جایا کرتی ہے
اپنے شوق پورے کرتے کرتے ھی سال گزر جاتا تھا
آج خود کے لئے ایک کپڑا لینے کو ترس جایا کرتی ھے
سارا دن فارغ ھوکے بھی مصروف بتایا کرتی تھی
اب پورے دن کام کرکے بھی کام چور کہلایا کرتی ہے