ابتدائیہ:حمد عربی لفظ ہے، جس کے معنی”تعریف” کے ہیں۔ اللہ کی تعریف میں کہی جانے والی نظم کو حمد کہتے ہیں۔ حمد باری تعالیٰ، ہر زبان میں موجود ہے۔ عربی، فارسی، کھوار اور اردو زبان میں اکثر دیکھی جاسکتی ہے۔
حمد و مناجات کے متبادل انگریزی کے کئی الفاظ وضع کیے گئے ہیں:
Praise of God
اور Hymn
یا پھر Psalm ہے۔
ان کا لفظی معنی (Literal Meaning) یا حتمی تعریف ثنائے رب کریم ہے۔
اللہ کی تعریف و توصیف ہر زمانے میں کیا جاتی رہی ہے۔ یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ اللہ رب العزت یعنی خدا کو انگریزی میں God کہتے ہیں۔
G یعنی Generator ،
O یعنی Operator ،
D یعنی Destructor مطلب یہ کہ خدا خالق، پالنہار اور قہار بھی ہے۔
ہندو دھرم میں اس کے متعدد ناموں میں سے ایک نام ’’نارائن‘‘ ہے۔ سنسکرت کے اس لفظ کا اشتقاق کچھ یوں ہے۔ ’’نار‘‘ بمعنی پانی اور ’’آئن‘‘ بمعنی متحرک۔
ثنائے رب جلیل کے عالم انسانیت کے جذبے اور رویئے میں یکجہتی اور یکسانیت کے آثار پہلے سے ہی موجود ہیں۔ تفریق و امتیاز محض مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے عقائد میں ہے لیکن سبھی کے عقائد خداوندی میں تلاش وحدت ہی ہے۔
مناجات:فرہنگ آصفیہ، جامع اللغات، نور اللغات اور دوسری لغت کی کتابوں میں ’’مناجات‘‘ کے لغوی اور فنی معنی اپنا بھید کہنا یا پھر طلب نجات کے لئے خدا کی بارگاہ میں دعا کرنا سے بیان کئے گئے ہیں۔
قرآن کریم اور حمد و مناجات:
مدح کے لغوی معنی تعریف، توصیف، ستائش جبکہ منت سماجت بمعنی عرض معروض، خوشامد اور درخواست ہیں۔ اول الذکر سے ’’حمد‘‘ اور ثانی الذکر سے ’’مناجات‘‘ کی اصطلاحات مشتق ہیں۔ یہ اصطلاحات ذات باری تعالیٰ کے لیے مخصوص ہیں۔ لہٰذا حمد اور مناجات کا اطلاق خدائے وحدہ لاشریک کے علاوہ کسی اور کے لیے روا نہیں رہا۔
مولانا ابوالکلام آزاد حمد کی تعریف کرتے ہوئے م رقم طراز ہیں:’’عربی میں حمد کے معنی ثنائے جمیل کے ہیں یعنی اچھی صفات بیان کرنا۔ اگر کسی کی بری صفتیں بیان کی جائیں تو وہ حمد نہ ہو گی۔ ‘‘
(ترجمان القرآن، جلد اول،ص:31)
قرآن حکیم میں ترغیب ہے کہ بندے بھی اللہ کی پاکی بیان کریں۔ پس خدائے لم یزل کی پاکی بیان کرنا، اس کی ذات و صفات کی تعریف حمد ہے اور یہ قرآن حکیم کا منفرد اسلوب بیان ہے۔
سورۃ الحشر، سورۃ الصف، سورۃ الجمعہ اور سورۃ التغابن کی ابتدا ءمیں ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے اللہ کی تسبیح و حمد کرتا ہے ۔ مومنین کو بعض جگہ حکم دیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کیاکریں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا احاطہ ممکن نہیں اس لیے حمد میں جو چاہے بیان کر لیں اسے مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت ہی کہا اور سمجھا جائے گا۔
حمد مدح رب العالمین ہے تو مناجات اس سے مانگنے کا ایک مخصوص انداز! بندہ اپنے رب کے حضور خودکو کمتر، حقیر اور گناہ گار پیش کرتے ہوئے التجا کرتا ہے۔ ہر مناجات دعا کا ہی رنگ رکھتی ہے میرا ماننا ہے کہ دعا تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن مناجات کا تعلق ایمان سے ہے۔ سورۂ فاتحہ حمد و مناجات کی بہترین مثال ہے۔
قرآن پاک میں حمد کے مفہوم کی بے شمار آیات موجود ہیں ۔آیت الکرسی حمد کی بہترین مثال ہے۔
حمد و مناجات اور شریعت:
دعا، مناجات، التجا، گزارش، دہائی، فریاد، معاونت یا استعانت مترادفات ہیں۔ جب ان الفاظ کا رشتہ براہ راست خالق کائنات سے جُڑتا ہے تو نہ صرف ان کا احاطہ فکر وسیع و آفاقی ہو جاتا ہے بلکہ عقیدتوں کی پاکیزگی ، ادب و احترام کی نازکی اور روحانی لطافت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ روحانی اثرات پر مکمل یقین اور اعتقاد رکھنے والا جھونپڑی کا مکین ہو یا محل میں قیام پذیر، آقا ہویا غلام، کسان ہو یا امیر ذیشان، قلندر ہو یا سکندر، شاہ ہو کہ گدا، ڈاکٹر،عالم، انجینئر یا سائنسدان ہو یا ناخواندہ سیدھا سادا ملازم پیشہ انسان۔ اس کی زندگی کے تمام گوشے، سکھ دکھ، اُونچ نیچ، دھوپ چھاؤں یہاں تک کہ فرطِ انبساط اور دلفگارِ غم میں بھی ایک دلربائی اور چہروں پر قلبِ مطمئنہ کا جمال نظر آئے گا۔
آستان ناز پر جس کی جبیں ہے سجدہ تو کیا
اس کو کوئی تاجِ سلطانی بھی پہنائے تو کیا؟
اللہ کو تسلیم کر کے اپنی عاجزی، انکساری، بے کسی اور مجبوریوں کا اظہار اسلوب مناجات ہے ۔
حضرت فرید الدین عطارؒ بیان کرتے ہیں
ذکر حق آمد غذا ایں روح را
مرہم آمد ایں دل مجروح را
حضرت مولانا رومیؒ بیان کرتے ہیں
خود چہ شیرین ست نام پاک تو
خوشتر از آب حیات ادراک تو
خاقانیؒ لکھتے ہیں کہ
پس از سی سال این معنی محقق شد بخاقانی
دے با باد حق بودن بہ از ملک سلیمانی
حضرت سعدیؒ اور حکیم سنائی نے اسم ذاتی اللہ کو بہترین حمد و مناجات قرار دیتے ہوئے ’’سلْطَانُ الْاَذْکَارِ‘‘ کہا ہے۔
اسلامی معاشرے کا یہ خاصہ ہے کہ
کسی کام کی ابتدا کرے تو کہے، بسم اللہ۔
وعدہ کرے تو کہے، ان شاء اللہ۔
کسی خوبی کی تعریف کرے تو کہے، سبحان اللہ۔
کوئی تلطف اور تکلف سے پیش آئے تو کہے، جزاک للہ۔
کسی سے اپنی خیر و عافیت کا ذکر کرے تو کہے، الحمد اللہ۔
جانے اَن جانے میں گناہ سرزد ہو تو کہے، استغفراللہ۔
کسی کو رُخصت کرے تو کہے،فی امان اللہ،
نا زیبا کلمات زبان و قلم پر آئیں تو کہے، نعوذ باللہ اور
موت کی خبر سنے تو کہے، انا للہ و انا اللہ راجعون۔ وغیرہ وغیرہ۔
حمد و مناجات کا اسلوب: حمد و مناجات کا اپنا کوئی مخصوص اسلوب نہیں ہے۔ غزلیہ ہیئت کے علاوہ قصیدہ، مثنوی، قطعہ، رباعی، نظم، آزاد غزل، مخمس، مسدس، مثلث، مربع، ثلاثی، دوہے، سانٹ، ترائیلے اور ہائیکو جیسی اصناف میں بھی حمدیہ و مناجاتی شاعر ی ہو رہی ہے لیکن غزلیہ ہیئت کو دیگر اصناف کے مقابلے میں بہرحال زیادہ شہرت ملی ہے۔
حمد کی تاریخی اہمیت:حمدیہ ترانوں کے ابتدائی نقوش اور تاریخی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر یحییٰ نشیط بیان کرتے ہیں : ’’ کلدانیوں اور حطیوں کے مٹی کی پکی اینٹوں پر کندہ کیے گئے حمدیہ ترانوں سے لے کمپیوٹرائزڈ کتابوں کے دور تک حمدیہ ترانے برابر لکھے اور اَلاپے جا رہے ہیں۔ ان کی گنگناہٹ جہاں فضائے آسمانی کو معمور ہوئے ہے وہاں قلوب ِانسانی میں بھی ہلچل پیدا کرنے کا سبب ہے اور بعید نہیں کہ ثنائے رب کریم کا یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے۔ ‘‘
حمد کی دینی و ادبی قدر و قیمت:حقیقی معبود اللہ رب العزت ہے، وہی ادب کا ہنر بھی عطا کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پروردگار نے مجھے ادب عطا کیا ہے۔ دراصل ادب ظاہر اور باطن کی تہذیب اور آراستگی ہے۔ کمال، مکارم اخلاق سے اور مکارم اخلاق، تحسین اور تہذیب خلق سے ہے۔ اردو زبان میں جب سے شاعر ی کا تجربہ ہوا تبھی سے حمد لکھی گئی۔
حمد کی دینی اور ادبی قدر و قیمت کی وجہ سے یہ صرف ہمارے مضطرب جذبات کی تسکین کا سامان، تفنّنِ طبع، احساسِ جمال، انفرادی لذّت کوشی، خوفِ خدا، بصیرت و بصارت کی توثیق یا شاعر ی برائے شاعر ی ہی نہیں ہے بلکہ ادب میں اس کی مستقل صنفی حیثیت ہے۔ یہ درست ہے کہ عروض و بلاغت اور قواعد ِاصنافِ سخن کی کتب میں حمد و مناجات کی صنفی حیثیت کا ذکر نہیں ہے کیونکہ عقیدت اور بسم اللہ کے طور پر حمدکہی جاتی ہےاور حمد و مناجات کے لیے والہانہ عشق ضروری ہے کیونکہ اظہار افعال و اعمال سے وابستہ ہے۔ مہارت و محاربت، متانت و سنجیدگی اور جوش ربانی کی فراوانی کے بغیر کوئی بھی شاعر حمد میں اظہار عقیدت نہیں کر سکتا۔
اِلہام، اِلقا، گیان اور دھیان کے تصور سے مملُوْ یہ صنفِ سخن، ماورائی، داخلی اور ذہنی قوت کی دین ہے۔ شعری روایت کے معنوی تسلسل میں حمد تصور و تفکر، عبقریت، ذہنی رفعت اور جذبات و حواس کے ذریعے سے دخیل ہے۔ سیموئل ٹیلر کولرج کہتے ہیں:’’میں متخیلہ کو بنیادی اور ذیلی سمجھتا ہوں۔ بنیادی متخیلہ وہ ہے جو تمام انسانی ادراک کا محرک ہے اور وہ خارجی تخلیق کاری میں دماغ کے محدود حصہ کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ لامحدود حصہ اس کی ذات ہوتی ہے۔ ذیلی تصور بنیادی تصور کی ہی بازگشت ہوتا ہے جو شعوری ارادے کے ساتھ منسلک ہوتا ہے لیکن وہ تقریباً بنیادی تصور کی طرح تخلیق کا محرک ہوتا ہے۔ ’’میں ہوں ‘‘ کی طرف سے موضوعی تخلیق کا یہ لائحہ عمل داخلی آواز ہے جو متعلقہ مقصدیت میں ضم ہو کر شعر ی روایت کے داخلی اور خارجی عناصر کی خالص موضوعاتی حمدیہ شاعر ی کے معنوی تسلسل کو جنم دیتی ہے یا تابع بناتی ہے۔“
ادب اور روسی اشتراکیت:آغازِ سخن وری سے 1937ء تک ادب اور مذہب ہم آہنگ رہےلیکن ترقی پسند تحریک اور روسی اشتراکیت کے نظریے سے متاثر ہونے والوں نے ادب اور مذہب کو تقسیم کرنے کی شعوری کوشش کی جس کا منفی اثر سرمایۂ ادب پر ضرور پڑا لیکن 1960ء خصوصاً 1980ء کے بعد شعرا ءنے حقیقت سمجھ کر اس سے جان چھڑا ئی اور متعین طرزِ اظہار ’’حمد‘‘ کو بلا جھجک اپنا لیا ہے۔
حمد سے عدمِ توجہی کی وجہ Anthroposphere ماحول بھی رہا ہے۔ ویسے سچائی یہ بھی ہے کہ اردو میں حمدیہ شاعر ی کا پہلا مجموعہ غلام سرور لاہوری کا ہے جو ’’دیوان حمد ایزدی‘‘ کے نام سے 1881ء میں مطبع نول کشور، لکھنو سے شائع ہوا۔ مثال دیکھئے :
زباں پر ذکر حمد ایزدی ہر دم رواں رکھنا
فقط یادِ اِلٰہی سے غرض اے مری جاں رکھنا
مختلف ادوار میں حمد کے فکری اور اسلوبیاتی تجربے ہوتے رہے اور یہ اسلوبیاتی تغیر مرحلہ وار محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
حمد اور مناجات کی اہمیت و ضرورت:
حمد کا لفظ شکر کے لفظ سے زیادہ عام اور مقبول ہے اس لئے کہ وہ لازم اور متعدی دونوں صفات کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ مخلوق پر اللہ کی نعمتیں ان گنت ہیں ۔ انسان میں عالم اکبر کی تقریباً ساری ہی مثالیں موجود ہیں۔ ہمارا جسم حد نگاہ تک پھیلی ہوئی زمین کی طرح، ہمارے بال نباتات کی مثال تو ہماری ہڈیاں پہاڑوں کی مانند ہیں۔ جسم کو خون فراہم کرنے والی شریانیں، وریدیں اور عروق شعر یعنی باریک رگیں تو دریاؤں، نہروں ، ندی نالوں اور چشموں کی مثال ہیں جن کے ذریعہ عالم اکبر یعنی زمین کی سرسبزی کی طرح عالم اصغر یعنی ہمارے جسم کی شادابی برقرار رکھی جاتی ہے۔
جملہ نعما متقاضی ہیں کہ انسان اپنے محسن اور منعم یعنی اللہ، الرحمٰن الرحیم کے احسانات اور انعامات کی شکر گزاری میں اس کی حمد و ثناء کرتا رہے جس کی ترغیب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے کلام پاک کو لفظ ’’الحمد‘‘ سے شروع فرما کر دلائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عبادات میں حمد و ثنائے الٰہی کا مقام کلیدی ہے۔
قدیم حمدیہ شاعر ی:
عربی، فارسی کی طرح اردو شاعر ی میں بھی حمد کہنے کی روایت برابر ملتی ہے۔ اردو شعراءنے عقیدت و ایمان کے گل ہائے معطر حمدکی لڑیوں میں پرو کر باری تعالیٰ کے اوصاف حمیدہ اور اسمائے حسنیٰ کے گیسو ہائے معتبر سجائے ہیں۔
’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ (1421ء اور 1434ء ) از فخر الدین نظامی بیدری کو حالیہ تحقیق کے مطابق اردو کی قدیم ترین تصنیف تسلیم کیا گیا جو اُردو مثنوی کے عناصر ترکیبی میں حمد و نعت و منقبت کا شہکار ہے۔
پھر عبدلؔ کاابراہیم نامہ،خوب محمد چشتی کا خوب ترنگ، شاہ برہان الدین جانم، غواصی، ابن نشاطی کا ’’پھول بن‘‘ تو صنعات لفظی و معنوی کا بیش بہا خزانہ ہے، نصرتی دکن کی دو مثنویاں ’’گلشنِ عشق‘‘ اور ’’علی نامہ‘‘،قلی قطب شاہ معانیؔ کا صنعت ردالعجز میں خوبصورت کام، علی عادل شاہ ثانی شاہیؔ کی حمدیہ غزل اور مثنوی ’’خیبرنامہ‘‘ حمد کے ارتقا کی مثالیں ہیں۔ ’’احسن القواعد‘‘ میں محمدنجف علی خاں نے مثنوی کے اقسام، اشعار اور اوزان سے بحث کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’داستان مثنوی کے لیے تمہید شرط ہے اور ربط کلام کا سلسلہ واجب اور مثنوی کے دیباچہ میں کئی چیزیں لازم ہیں توحید، مناجات، نعت، مدح سلطان زماں، تعریف کے دیباچہ میں ان سب باتوں کے موجد حضرت نظامی گنجوی ہیں۔ ان سے پہلے مثنوی کو فقط قصے سے شروع کیا کرتے تھے۔ ‘‘
فنی اعتبار سے مناجات کے اجزائے ترکیبی
فنی اعتبار سے مناجات کے اجزائے ترکیبی حسبِ ذیل ہیں
تعریف خداوندی
انسان کی بے کسی و عاجزی
نجات طلبی
حمدیہ استدلال
دعائیہ
المختصر:اردو شاعری کی خوبی ہے کہ کوئی صاحبِ دیوان یا مجموعۂ شاعری ایسا نہیں ملتا جس کی ابتداء حمدیہ کلام سے نہ کی گئی ہو۔
از کتاب قلم دوات۔مصنف: احمد منیب/ نیدرلینڈ
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں