لاہور ( مانیٹرنگ ڈیسک ) اور اب ایک اور اہم انکشاف نے پاکستانی عوام کو چونکا کر رکھ دیا ہے ، انکشاف یہ ہے کہ جس شخص کا پاکستان میں کوئی گھر نہیں ، کوئی جائیداد نہیں اس شخص کے سوئس بینک میں 2اکاﺅنٹس نکل آئے ہیں اور بات صرف اکاﺅنٹس تک محدود نہیں ہے بلکہ ان 2اکاﺅنٹس میں 4ارب روپے بھی پڑے ہیں ۔۔۔۔آئیے آپ کو ایک اور اکاﺅنٹ کہانی کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہیں ۔۔۔۔محمد جاوید نامی ایک بے گھر پاکستانی کے سوئس بینک میں 2 اکاﺅنٹس ہیں جن میں موجود رقم4 ارب روپے بنتی ہے۔ جاوید کبھی پاکستان سے باہر نہیں گئے اور ان کا کسی پاکستانی بینک میں بھی اکاﺅنٹ نہیں ہے۔ان کا نام ایف بی آر کے ٹیکس سسٹم میں بھی موجود نہیں۔ سوئس بینک میں ان کا اکاﺅنٹ مصدقہ ہے اور اس صورتحال سے بات واضح ہو جاتی ہے کہ جعلی اکاﺅنٹس کا معاملہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ سوئس بینکوں میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ 2003ءمیں جس وقت ان کے نام سے پہلا کارپوریٹ اکاﺅنٹ سوئس بینک میں کھولا گیا تھا اس وقت ان کی عمر 23 سال تھی۔
اس وقت وہ فیکٹری میں ملازم اور 200 سے 300 روپے روزانہ اجرت کماتے تھے۔ اُس وقت ان کے پاس پاسپورٹ بھی نہیں تھا کہ وہ ملک سے باہر جا سکیں۔ جب 2005ءمیں انہیں پہلا پاسپورٹ ملا اس وقت ان کے اکاﺅنٹ میں موجود رقم 3.4 ارب روپے تھی۔دوسرا اکاﺅنٹ بھی کریڈٹ سوئیز بینک میں کھولا گیا اور 2006ءمیں اس اکاﺅنٹ میں 40 کروڑ 10 لاکھ روپے جمع کرائے گئے۔
یہ انکشافات جرمن بینک کو لیک کیے جانے والے سوئس بینک کے ڈیٹا کا جائزہ لینے پر سامنے آئے ہیں۔ جاوید کیلئے ان اکاﺅنٹس کی موجودگی حیران کن بات تھی، انہیں یہ نہیں معلوم کہ ان کی شناخت کس نے استعمال کرکے یہ اکاﺅنٹس کھلوائے۔
ملک کے معروف اخبار ”دی نیوز“ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر میرے پاس یہ اکاﺅنٹس ہوتے تو میں یہاں گٹر میں زندگی نہ گزار رہا ہوتا، کسی ڈی ایچ اے جیسے بہترین مقام پر رہائش پذیر ہوتا۔
محمد جاوید لاہور میں ایل ڈی اے کی جانب سے مسمار کی جانے والی بستی میں رہتے تھے۔ یہ جھونپڑیاں گلبرگ میں سیوریج لائنوں کے قریب بنی تھیں۔ جاوید اور ان کے اہل خانہ 1947ءسے یہاں رہائش پذیر تھے لیکن سٹی انتظامیہ نے4 ماہ قبل بھرپور قوت سے اس علاقے کو مسمار کر دیا۔
جاوید کا کہنا ہے کہ ایل ڈی اے والوں نے صرف 10 منٹ دئیے کہ سامان اٹھا لیں۔ جاوید کے بھائی یہاں سے جا چکے ہیں لیکن وہ اپنی والدہ کے ساتھ یہاں رہائش پذیر تھے، انہوں نے کہا کہ وہ یہاں سے جا نہیں سکتے کیونکہ دینے کیلئے کرایہ نہیں ہے۔ جاوید کی ماں سے جب ان کے بیٹے کے سوئس اکاﺅنٹس کا سوال کیا گیا تو انہوں نے اپنے ٹوٹے گھر کو دیکھ کر افسردگی کا اظہار کیا اور ان کی آنکھیں چھلک گئیں۔
انہوں نے کہا کہ جس کے پاس اپنے کھانے کو پیسہ نہ ہو وہ بیرون ملک بینک اکاﺅنٹ کیسے کھولے گا۔” دی نیوز“ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جس جاوید کے نام پر سوئس اکاﺅنٹس کھولے گئے تھے وہ یہی محمد جاوید ہے جو نومبر 1977ءمیں پیدا ہوا۔ اس شخص کی شناخت کو کیسے استعمال کرکے یہ اکاﺅنٹس کھلوائے گئے؛ ایک راز ہے۔
سٹینڈرڈ چارٹرڈ میں کام کرنے والے ایک سابق بینکار، جو اپنے کلائنٹس کے آف شور اکاﺅنٹس سنبھالتے تھے، نے” دی نیوز“ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ شناخت کی چوری بین الاقوامی پرائیوٹ بینکنگ میں ایک عام بات ہے، عموماًیہ کام ریلیشن شپ مینیجر اور اپنے فنڈز باہر بینک میں محفوظ کرنے کے خواہاں کلائنٹ کی رضامندی سے ہوتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کی بجائے کسی اور کا نام استعمال ہو لیکن ٹرانزیکشن کا کنٹرول اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ اکاﺅنٹ بغیر پاسپورٹ کے کھولنا ممکن نہیں اور یہ معاملہ بھی اس وقت پیچیدہ ہو جاتا ہے جب جاوید یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اکاﺅنٹ کھلنے کے 2 سال بعد تک اس کے پاس پاسپورٹ تھا ہی نہیں۔ یہ واضح نہیں کہ اس کی شناخت کو استعمال کرکے کیسے اکاﺅنٹ کھولا گیا۔ رابطہ کرنے پر کریڈٹ سوئیز بینک نے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔