لاہور ( طیبہ بخاری سے ) جب سے ملک میں نئے وزیر خزانہ نے ذمہ داریاں سنبھالی ہیں تب سے ڈالر کے قدم اکھڑ گئے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ یہ سب ڈار کا ڈر ہے، انکی واپسی کا نتیجہ ہے کہ ڈالر کی اڑان تھم گئی ہے ، بے قابو ڈالر کا رخ اب زمین کی جانب ہے . وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تو یہاں تک دعویٰ کر دیا ہے کہ 24 دنوں میں ڈالر 200 روپے تک آ جائے گا۔ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ڈالر240 روپے تک گیا، میں پاکستان واپسی کے لیے جہاز میں بیٹھا تو ڈالر نیچے آنا شروع ہو گیا تھا۔ ڈالر کی قیمت پر نظر رکھنا سٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہے، ڈالر 24 دن میں 24 روپے کم ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط
اور پروگرام مکمل کریں گے، اکتوبر میں پٹرول پر 5 روپے لیوی لگنا تھی جو نہیں لگی، آئی ایم ایف پروگرام جون تک رہے گا۔انہوں نے کہا کہ ہمیشہ ڈی ویلیو ایشن کے خلاف رہا ہوں، مہنگائی کی شرح 12 سے 14 فیصد تک لے کر آئیں گے، گزشتہ پیر سے لے کر اب تک ڈالر 18 روپے کم ہو چکا ہے۔
امریکی ڈالر کے زوال کے باعث جہاں عام فرد کے حالات بہتر ہونے کی توقع ہے، وہیں پاکستان پر موجود قرضوں میں بھی نمایاں کمی آئے گی۔امریکی ڈالر گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل پسپائی اختیار کیے ہوئے ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ عروج کی جانب گامزن ہے۔22 ستمبر سے 5 اکتوبر تک ڈالر کی قدر میں 14 روپے 21 پیسے کمی واقع ہو چکی ہے۔22 ستمبر کو ڈالر کی قدر 239 روپے 71 پیسے تھی۔ڈالر کی قدر میں کمی سے پاکستان پر قرضوں کے بوجھ میں 1800 ارب روپے کمی آ گئی۔جبکہ خود سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) بتا چکا ہے کہ 23 ستمبر کو ختم ہونے والے ہفتے میں ملکی زرمبادلہ ذخائر 30 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کم
ہوئے ، ملکی زرمبادلہ ذخائر 23 ستمبر تک 13 ارب 76 کروڑ ڈالر رہے۔ سٹیٹ بینک کے ذخائر 34 کروڑ ڈالر کم ہو کر 8 ارب ڈالر رہے، کمرشل بینکوں کے ذخائر میں 3 کروڑ 25 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا جس کے بعد وہ 5 ارب 75 کروڑ ڈالر رہے۔
یہاں وزیر خزانہ کی 2 اہم ملاقاتوں کا ذکر ضروری ہے . اسحاق ڈار گورنر سٹیٹ بینک سے ملے اور یو اے ای کے سفیر سے ملاقات بھی کی . متحدہ عرب امارات کے سفیر حمد عبیدابراہیم سلیم الزعابی نے اسحاق ڈار سے اہم ملاقات کی ہے ، ملاقات میں سفیر نے متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی ظاہر کر دی ہے۔ سفیر نے اسحاق ڈار کو وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے پر مبارکباد دی۔ دونوں رہنماﺅں کی اس ملاقات میں پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے مابین دوطرفہ تعاون کو
فروغ دینے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر اماراتی سفیر نے کہا کہ ابوظہبی سرمایہ کاری اتھارٹی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے میں گہری دلچسپی رکھتی ہے۔ ملاقات میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ”پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے مابین طویل مدتی دوطرفہ تعلقات ہیں اور ہم ان تعلقات میں مزید فروغ کے خواہاں ہیں۔“
اور اب گورنر سٹیٹ بینک سے ملاقات کا ذکر کریں تو وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے ملاقات کی۔وزارت خزانہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق ملاقات میں معاشی استحکام کے لیے اقدامات پر غور کیا گیا۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے معیشت کی بحالی کے لیے حکومت کے مالیاتی اقدامات بارے میں بتایا، پائیدار معاشی ترقی کے لیے مالیاتی، زری پالیسی میں رابطے کی ضرورت پر زور دیا۔ملاقات میں ۔گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ نئے وزیر خزانہ آنے سے مارکیٹ میں روپے کی قدر میں بہتری آئی ہے۔گورنر سٹیٹ بینک نے میکرو اکنامک پالیسی اقدامات سے پائیدار ترقی کے ہدف پر بریفنگ دی اور معاشی بحالی کے لیے
حکومتی اقدامات کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔وزیر خزانہ نے ڈیجیٹل بینکنگ متعارف کرانے، راست پیمنٹ سسٹم، مالیاتی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے سٹیٹ بینک کے کردار کو سراہا۔
اسحاق ڈار کی واپسی کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی کمی آئی ہے گو کہ یہ کمی “ہلکی پھلکی” ہے لیکن مسلم لیگ ( ن) کی وفاقی حکومت اسے اپنا کریڈٹ قرار دے رہی ہے جبکہ دوسری جانب اپوزیشن حلقے پیٹرولیم لیوی کا معاملے پر سوالات اٹھا رہے ہیں اور یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا پٹرولیم لیوی کے معاملے پر آئی ایم ایف کے معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں؟ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے وزیرمملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے چند جوابات دئیے ہیں ، انکا کہنا ہے کہ” پٹرولیم لیوی کے معاملے پر آئی ایم ایف کے معاہدے کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ ہمارے پاس وقت اور سپیس تھی، جس کو ہم نے استعمال کیا۔ ہم آئی ایم ایف کے پروگرام پر کاربند ہیں اور اس کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کیے بغیر عوام کو ریلیف دیا۔ ہم اکتوبر میں میٹنگ کے لیے جا رہے ہیں، جس میں آئی ایم ایف کے ساتھ تفصیل سے بات کریں گے۔ قبل ازیں آئی ایم ایف کے ساتھ جو بھی بات طے ہوئی وہ سب کے سامنے ہے۔ ڈالر کے معاملے پر سٹیٹ بینک، بینکوں کی تحقیقات کر رہا ہے۔ اگر کوئی بینک
ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف قوانین کے مطابق کارروائی ہو گی۔ تباہ کن سیلاب نے ملکی معیشت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، جس کی وجہ سے رواں مالی سال کے دوران معاشی شرح نمو 2فیصد تک رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی اداروں کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ اس مشکل وقت میں ان کے ساتھ ہونے والے معاہدوں میں تبدیلیاں ہوں گی۔ہم سیلاب کا پانی نکالنے کے لیے بڑے پمپ درآمد کر رہے ہیں اور اس سال کسانوں کو بیج اور کھادیں مفت مہیا کیے جائیں گے”۔
ایک طرف وزیر مملکت برائے خزانہ کے بیانات ہیں دوسری جانب سٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ستمبر 2022ء میں ملکی تجارتی خسارہ 2 ارب 88 کروڑ ڈالرز رہا.رواں سال ستمبر میں خسارہ گزشتہ برس کے اسی ماہ کے مقابلے میں 31 فیصد کم رہا ہے۔ ستمبر 2022ء میں ملکی درآمدات 5 ارب 26 کروڑ ڈالر رہیں جبکہ ملکی برآمدات 2 ارب 38 کروڑ ڈالر رہیں۔اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کا تجارتی خسارہ 9 ارب 20 کروڑ ڈالر رہا۔3 مہینوں میں ملکی برآمدات 2 فیصد اضافے
سے 7 ارب 12 کروڑ ڈالر ہیں جبکہ ملکی درآمدات 13 فیصد کم ہوکر 16 ارب 33 کروڑ ڈالر ہیں۔
ستمبر کے اواخر میں ہی وزارت خزانہ نے ملکی معیشت کے بارے میں ماہانہ معاشی رپورٹ جاری کر چکی ہے جس میں کہا گیا کہ عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں کمی کے اثرات پاکستانی عوام تک پہنچنے میں وقت لگے گا، پاکستانی روپے کی قدر میں کمی سے ملک میں افراط زر پر دباؤ ہے۔ سیلاب نے لوگوں کو اثاثوں و آمدنی سے محروم کر دیا، جس سے معاشی نمو متاثر ہوگی، رواں مالی سال پاکستان کی معاشی ترقی غیر یقینی اور ہدف سے کم رہنے کا امکان ہے۔ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ سیلاب کی وجہ سے حکومتی آمدنی میں کمی اور اخراجات میں اضافے کا امکان ہے، حالیہ سیلاب، بارشوں سے کپاس اور دیگر فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ، رواں مالی سال کے آغاز سے ہی معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں، پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں میں بڑھتے چیلنجز کا سامنا ہے۔رواں مالی سال کے پہلے 2 ماہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں 24 فیصد کمی ہوئی، سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات
زر 3.2 فیصد کمی سے 5.2 ارب ڈالر رہیں۔ سیلاب کی وجہ سے 1400 ہیلتھ یونٹس مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے.
تمام تر تفصیلات کے باوجود بھی کئی ایک سوالات ہیں جن کے جوابات ضروری ہیں
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ڈالر کے قدم اکھڑ چکے ہیں ؟
ایسا ہے تو یہ پہلے کیوں نہیں ہوا ؟
قرضوں کا بوجھ اتنی آسانی اور کسی کے آنے سے کم ہو سکتا ہے تو بڑھنے کیوں دیا گیا اور کسی کو جانے کیوں دیا گیا ؟
کہیں اب کی بار بھی صورتحال “مصنوعی”تو نہیں ؟
کہیں یہ سب انتخابات کی تیاری تو نہیں ؟
کہیں ایک بار پھر کسی دوسرے کیلیے “بارودی سرنگیں ” تو نہیں بچھائی جا رہیں ؟
اب تک کیلئے اتنے سوالات کافی ہیں ……باقی پھر کبھی
عوام کو سب معلوم ہے کہ “کھیل ” جاری ہے ….کیونکہ یہ جو پبلک ہے یہ سب جانتی ہے …..