تحریر : آغا نیاز احمد مگسی
جیفری چاسر 1343ءمیں لندن میں پیدا ہوا ۔ماہرِ لسانیات، شاعر، فلسفی، سیاستداں، مترجم، منجم اورمصنف یہ سب خصوصیات ان میں تھیں، انہیں انگریزی شاعری کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ بچپن میں شاہی محل میں ملازم ہو گیا،ان دنوں برطانیہ میں ایڈورڈ سوم کی حکومت تھی۔ بادشاہ اس کی کارکردگی سے بہت خوش تھا۔ ایک بار انگلستان سے فرانس ایک مہم روانہ کی گئی جس میں چاسر بھی شامل تھا، اس مہم میں چاسر کو فرانس میں قیدی بنا لیا گیا۔ آخر شاہ انگلستان نے تاوان ادا کرکے اسے چھڑا لیا، اس کے بعد اٹلی اور چند دوسرے ممالک میں برطانیہ کے سفیر کی حیثیت سے بھیجا گیا۔1369ء میں اس کی شاعرانہ زندگی کا آغاز ہوا اور چند ہی برسوں میں انگلستان میں اس کی شاعری کی دھوم مچ گئی۔ اس کی نظموں کا انگلستان کے لوگوں پر وہی اثر ہوا جو اٹلی میں دانتے کی نظموں کاہوا تھا۔
جیفری چاسر غالباً انگریزی ادب کا پہلا بڑا شاعر ہے جس نے انگریزی زبان کی منفرد پہچان میں اہم کردار ادا کیا۔ چاسر کی ذاتی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ کچھ دستیاب ڈاکومنٹس سے ایک موہوم سی تصویر بنتی ہے جس کے مطابق چاسر کی پیدائش 1340 ء کے لگ بھگ اور وفات60سال کی عمر میں 1400ء میں ہوئی۔چاسر کا والد ایک معمولی تاجر تھا لیکن 1349ء میں پھیلنے والی خوفناک اور تباہ کن طاعون کی وباءکی بنا ءپر اس کے قریبی عزیز کا انتقال ہوا اور چاسر کے والد کو ایک بڑی رقم ورثہ کے طور پر ملی جس سے اس کی زندگی بدل گئی۔ اس دولت نے نوجوان جیفری کو خاندانی پیشے یعنی تجارت سے باز
رکھا۔جیفری چاسر نے سرکاری ملازمت اختیار کی اور ترقی کرتے کرتے شاہ ایڈورڈ سوم کے دربار تک رسائی حاصل کی۔ چاسر کے زمانے میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان مشہور سو سالہ جنگ لڑی گئی ۔ اس جنگ میں چاسر نے سپاہی کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ چاسر ایک پڑھا لکھا شاعر تھا۔ وہ بیک وقت فرانسیسی، اطالوی، لاطینی اور انگریزی زبانوں میں مہارت رکھتا تھا۔ اپنی اس قابلیت کی بنا پر وہ2دفعہ اٹلی میں سفیر کے طور پر بھیجا گیا۔ غالب امکان ہے کہ ان 2 دوروں میں اس کی ملاقات اٹلی کے اس دور کے قومی شاعر بوکیچیوسے ہوئی ہو گی، جس کی تحریروں نے بطور شاعر چاسر کی کافی حد تک معاونت کی۔ چاسر کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ جاتے ہوئے زمانے یعنی قرونِ وسطیٰ اور آنے والے روشن دور نشاۃِ ثانیہ کی درمیانی دہلیز پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی شاعری میں دونوں زمانوں کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ اس کی شاعری کی خاص بات اپنے زمانے سے مطابقت ہے۔ چاسر کی مشہورِ زمانہ نظم PROLOGUE TO THE CANTERBURY TALES چودھویں صدی کے برطانیہ کی حقیقی معنوں میں عکاسی کرتی ہے۔ اس نظم کو پکچر گیلری بھی کہا جاتا ہے جس میں اس دور کی ایک ایک تصویر سجا دی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی تاریخ کا رسیا چودھویں صدی کے بارے جاننا چاہتا ہے تو چاسر کی یہ ایک نظم ہی اس کے علم کی پیاس بجھانے کو کافی ہے۔ اس نظم کے 29 کردار درحقیقت اس دور کے لندن کے چلتے پھرتے عوام ہیں۔ ہر میدان، پیشے اور گروہ کا کم از کم ایک نمائندہ اس نظم میں موجود ہے۔ چاسر نے اس نظم میں انتہائی مہارت کا استعمال کرتے ہوئے ہر کردار کو حقیقت کے پیرائے میں پیش کیا ہے۔ ہر کردار کو انسان کی بنیادی فطرت کے سانچے میں ڈھال کر تیار کیا گیا ہے ، یوں یہ نظم ہر دور کے لیے جدیدہے اور ہر خطے کے لیے موزوں ہے۔جیفری چاسر نے 74 نظمیں لکھیں۔ ایک اور مشہور نظم پارلیمنٹ آف فاؤلز 700مصرعوں پرمبنی ہے۔یہ نظم ایک ڈریم وژن پر مبنی ہے۔1374ء میں سینٹ جارج ڈے کے موقع پر اس وقت کے حکمران ایڈورڈ سوم نے چاسر کے لیے زندگی بھر کے لیے وظیفہ مقرر کیا۔ جیفری چاسر نے سیاست کے میدان میں بھی اپنا سکہ جمایا اور 1386ء میں برطانوی پارلیمنٹ کا رکن بنا۔ ان دنوں پارلیمنٹ کا اجلاس سال میں صرف 2 مہینے یعنی اکتوبر اور نومبر میں ہوتا تھا۔ جیفری چاسر کی وفات کا سال 1400ء کہا جاتا ہے۔ اس کے کتبہ پر تاریخِ وفات25 اکتوبر مذکور ہے۔ چاسر کو لندن کے مشہور قبرستان ویسٹ منسٹر ایبے کے گوشۂ شعراء(poets` corner) میں دفن کیا گیا۔ اس گوشے میں ٹینی سن، سپینسر، شیریڈن، کپلنگ،سیموئل جانسن، ہارڈی، ڈرائیڈن، چارلس ڈکنز اور ڈرایٹن جیسے نامور ادیب مدفون ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جیفری چاسر پہلا شاعر تھا جو اس گوشۂ شعراء میں دفن ہوا۔