متعلقہ

جمع

امرتا کور سے امرتا پریتم تک کا سفر

Spread the love

تحریر: آغاز نیاز احمد مگسی
آج ہم آپ کو پنجابی زبان کی معروف ناول نگار ، ادیبہ اور شاعرہ امرتا پریتم کی داستان سنائیں گے ، آج یعنی 31اکتوبر کو انکا یومِ وفات بھی منایا جا تا ہے۔31 اگست 1919ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیں بیسویں صدی کی پنجابی زبان کے ادب میں شہرت پانے والی خواتین میں انکا نام سب سے نمایاں ہے ۔امرتا پریتم پنجابی زبان کی وہ واحد شاعرہ، ناول نگار اور افسانہ نویس ہیں جو پاک و ہند میں یکساں مقبول ہیں ۔آپ نے 100سے زیادہ کتابیں شاعری ,افسانوں, ناول اور پنجابی فوک گیتوں پر لکھیں ، آپ کی کتابوں کا دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ۔
امرتا پریتم کا اصل نام امرتا کور تھا، والدہ کا بچپن میں ہی انتقال ہو گیا اسوقت آپکی عمر صرف11 سال تھی ۔ والدہ کے انتقال کے بعد والد آپ کو لیکر لاہور منتقل ہو گئے جہاں آپ نےپاکستان بننے تک قیام کیا۔ 1947ء کے بعد آپ انڈیا منتقل ہو گئیں ۔ آپ نے بچپن سے ہی لکھنا شروع کر دیا تھا ۔ آپ کی نظموں کی پہلی کتاب” امرت لہریں” 1936ء میں چھپی اس وقت امریتا کی عمرصرف 16 سال تھی اسی سال آپ کی شادی پریتم سنگھ سے ہو گئی اور یوں آپ امرتا کور سے امرتا پریتم ہو گئیں ۔1936 ء سے 1943ء کے دوران آپ

 

کی نظموں کی بہت سی کتابیں منظر عام پر آئیں ۔
امرتا بھارتی ایوانِ بالا کی رکن بھی رہیں ۔ انہوں نے بہت سے ایوارڈز بھی حاصل کیے جن میں پدم شری کا اعزاز بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ انہیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ اور دیگر اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں پنجابی ادب کے لیے گیان پیتھ ایوارڈ بھی شامل ہے۔ ساحر لدھیانوی کے ساتھ ان کا معاشقہ ادبی دنیا کے مشہور معاشقوں میں شمار ہوتا ہے جس کی تفصیل تھوڑی بہت ان کی کتاب “رسیدی ٹکٹ “میں موجود ہے۔امرتا پریتم کی سب سے شہرہ آفاق نظم ‘اج آکھاں وارث شاہ نوں’ ہے، اس میں انہوں نے تقسیم ہند کے دوران ہوئے مظالم کا مرثیہ پڑھا ہے۔ کچھ اشعار ذیل میں درج ہیں۔
شاہ مکھی متن:
اج آکھاں وارث شاہ نوں، کتوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ کھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لِکھ لِکھ مارے وَین
اَج لَکھاں دھیآں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کَیہن
اٹھ دردمنداں دیا دردیا تک اپنا دیس پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وچ اج دتی زہر رلا
تے اوہناں پانیاں نوں دتا دھرت نوں لا
جتھے وجدی پھوک پیار دی او ونجلی گئی گواچ
رانجھے دے سب ویر اج بھل گئے اوس دی جاچ
دھرتی تے لہو وسیا تے قبراں پیّئاں چون
پریت دیاں شہزادیاں اج وچ مزاراں رون
اج تے سبے کیدو بن گئے حسن عشق دے چور
اج کتھوں لیآئیے لبھ کے وارث شاہ اک ہور