تحریر:آغا نیاز مگسی
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
آج ہم آپ کو داستان سنائیں گے محمد ابراہیم ذوق کی ۔۔۔اردو زبان اور محاورے پر زبردست گرفت رکھنے والے شاعر اور نثر میں محمد حسن آزاد اور غزل میں داغ جیسے استادوں کے استاد، محمد ابراہیم ذوق ایک مدت تک بے توجہی کا شکار رہے۔ مغلیہ سلطنت کے برائے نام بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے عہد میں، ملک الشعراء کے خطاب سے نوازے جانے والے ذوق اپنے زمانہ کے دوسرے اہم شاعروں،غالب اور مومن سے بڑے شاعر مانے جاتے تھے۔
شیخ محمد ابراہیم ذوق 22 اگست 1790ءکو پیدا ہوئے، والد محمد رمضان ایک نو مسلم کھتری گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ان کا گھرانہ علم و ادب سے دور تھا ذوق کو حافظ غلام رسول کے مدرسے میں داخل کر دیا گیا۔غلام رسول خود بھی شاعر تھے اور شوق
تخلص کرتے تھے۔ان ہی کی صحبت میں ذوق کو شاعری کا شوق پیدا ہوا ۔ذوق نے بہرحال طالب علمی کے زمانہ میں اس شوق کو اپنی طبیعت پر حاوی نہیں ہونے دیا، انہوں نے اپنے شوق اور محنت سے مروجہ علوم مثلا ً نجوم،طب تاریخ وغیرہ میں دستگاہ حاصل کی اور ہر فن میں طاق ہو گئے۔
قسمت سے ہی مجبور ہوں اے ذوق وگرنہ
ہر فن میں ہوں میں طاق مجھے کیا نہیں آتا
شاعری کا سلسلہ بہرحال جاری تھا اور وہ اپنی غزلیں شوق کو ہی دکھاتے تھے۔لیکن جلد ہی وہ شوق کی اصلاح سے غیر مطمئن ہو گئے اور اپنے زمانے کے مشہور استاد شاہ نصیر کی شاگردی اختیار کر لی۔
قلعہ تک رسائی حاصل کرنے کے بعد ذوق باقاعدہ درباری مشاعروں میں شرکت کرنے لگےان کے ایک قصیدے سے خوش ہو کر اکبر شاہ ثانی نے ان کو خاقان ہند کا خطاب دیا۔شہر میں اس کے بڑے چرچے ہوئے ایک نو عمر شاعر کو خاقانی ہند کا خطاب ملنا ایک انوکھی بات تھی۔بعد میں ذوق کو سودا کے بعد اردو کا دوسرا بڑا قصیدہ نگار تسلیم کیا گیا ان کے قصائد کی فضاء علمی اور ادبی ہے اور فنی اعتبار سے بہت لائق تحسین ہے۔جلد ہی ان کی شہرت اور مقبولیت سارے شہر میں پھیل گئی یہاں تک کہ ان کے استاد شاہ نصیر ان سے حسد کرنے لگے۔وہ ذوق کے شعروں پر بے جا نکتہ چینیاں کرتے لیکن ذوق نے کبھی ادب کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا، ذوق کی عوامی مقبولیت ہی تمام نکتہ چینیوں کا جواب تھی۔ولی عہد مرزا ابو ظفر (بہادر شاہ) کی سرکار سے ان کو 4روپے ماہانہ وظیفہ ملتا تھا دہلی سے اپنی محبت کا اظہار انہوں نے اپنے شعروں میں بھی کیا۔۔۔
ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن
کون جائے ذوق پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر
وفات کے بعد ان کے شاگردوں نے کلام ترتیب دیا اور کام پورا نہ ہونے پایا تھا کہ 1857 ء کا غدر ہو گیا ذوق کی وفات کے تقریب40 سال بعد ان کا کلام شائع ہوا۔ذوق کی زندگی کے واقعات زیادہ تر ان کی شاعرانہ زندگی اور سخنورانہ معرکوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ذوق سے پہلے شہر میں شاہ نصیر کی استادی کا ڈنکا بج رہا تھا، وہ سنگلاخ زمینوں اور مشکل ردیفوں جیسے “سر پر طرہ ہار گلے میں’ اور ” فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں” کے ساتھ غزلیں کہہ کر شہر کو مرعوب کئے ہوئے تھے۔ ذوق جب ان سے زیادہ مقبول اور مشہور ہو گئے تو انہوں نے ذوق کو نیچا دکھانے کے لئے بہت سے ہتھکنڈے اپنائے لیکن ہر معرکے میں ذوق ظفر یاب ہوئے۔ذوق نے کبھی اپنی جانب سے چھیڑ چھاڑ کی ابتدا ءنہیں کی اور نہ کبھی ہجو لکھی۔
غالب کبھی کبھی چٹکیاں لیتے تھے۔شاعری میں ذوق کا سلسلہ شاہ نصیر سے ہوتا ہوا سودا تک پہنچتا تھا ۔ذوق کے کلام میں میر کی سی درد مندی اور کسک کے فقدان پر پھبتی کستے ہوے غالب نے کہا ۔
غالب اپنا بھی عقیدہ ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
غالب نے اپنے مقطع میں ناسخ کا نام لے کر یہ بھی اشارہ کر دیا کہ تمہارے استاد معنوی ناسخ بھی میر سے متاثر تھے اور تمہارے کلام میر کی کوئی جھلک تک نہیں۔اس کے جواب میں ذوق نے کہا
نہ ہوا پر نہ ہوا میرکا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
یعنی تمہارے یہاں کب میر جیسا سوز و گداز ہے بس خیالی مضمون باندھتے ہو۔شہزادہ جوان بخت کی شادی کے موقع پر غالب نے اک سہرا لکھا جس میں شاعرانہ تعلی سے کام لیتے ہوئے انہوں نے کہا۔۔۔
ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں
دیکھیں کہہ دے کوئی اس سہرے سے بہتر سہرا
یہ بات بہادر شاہ کو گراں گزری۔گویا ان پر چوٹ کی جا رہی ہے کہ وہ سخن فہم نہیں تبھی غالب کو چھوڑ کر ذوق کو استاد بنا
رکھا ہے۔انہوں نے ذوق سے فرمائش کی کہ اس سہرے کا جواب لکھا جائے۔ذوق نے سہرا لکھا اور مقطع میں غالب کے شعر کا جواب دے دیا۔۔
جن کو دعوائے سخن ہے یہ انہیں دکھلا دو
دیکھو اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا
بہر حال غالب ذوق پر چوٹیں کس ہی دیا کرتے تھے مگر اس خوبی سے کہ نام اپنا ڈالتے تھے اور سمجھنے والے سمجھ جاتے تھا کہ روئے سخن کس طرف ہے۔
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
ذوق کے ان گنت شعر آج تک ضرب المثل بن کر لوگوں کی زبان پر ہیں۔۔۔
پھول تو دو دن بہار جاں فضا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے ذوق تکلف میں ہے تکلیف سراسر
آرام سے ہیں وہ جو تکلف نہیں کرتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے ذوق اتنا دختر رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رخصت اے زنداں جنوں زنجیر در کھڑکائے ہے
مزدہ خار دشت پھر تلوا مرا کھجلائے ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعد رنجش کے گلے ملتے ہوئے رکتا ہے دل
اب مناسب ہے یہی کچھ میں بڑھوں کچھ تو بڑھے
16 نومبر 1854ء کو ذوق اس دنیا سے رخصت ہوئے