متعلقہ

جمع

دنیا کے خاتمے سے متعلق اہم پیش گوئی سامنے آ گئی

معروف سائنسدان آئزک نیوٹن کی دنیا کے خاتمے سے...

وفاقی محتسب میں لیسکو کی بد انتظامی کےخلاف شکایات کی بھرمار

لاہور ( طیبہ بخاری سے )وفاقی محتسب اعجاز احمد...

مودی کی “موئے موئے ” ہو گئی

پیرس (ایس ایم ایس )بھارتی وزیراعظم مودی کو ایک...

 مدرسے میں بستروں کے نیچے سے بچے کی لاش برآمد

آزاد کشمیر ( نیوز ڈیسک )میرپور آزاد کشمیر کے...

بنگلہ دیش اور بھارت کشیدگی میں مزید شدت

کراچی (نیوز ڈیسک) بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان...

بیٹیاں کب تک بدلے کی آگ کا ایندھن بنتی رہیں گی…؟

Spread the love

تحریر : طیبہ بخاری
آج آپ کو ایک بیٹی پہ گزری قیامت سنانی ہے ….اور اس میں اپنی طرف سے کوئی اضافہ نہیں کرنا …سچ اور جھوٹ کا فیصلہ اسی کے سپرد جو ہم سب کا خالق ہے …..یہ ایک بیٹی کا درد نہیں کئی بیٹیوں کا درد ہے گر معاشرہ اور نظام محسوس کریں …آخربیٹیاں کب تک بدلے کی آگ کا ایندھن بنتی رہیں گی…؟ کب تک اپنے وراثتی حق سے محروم رہیں گی ….؟ کب تک انہیں اپنے اور غیر دونوں لوٹتے رہیں گے …؟ کب تک انہیں تماشہ اور کھولونا بنایا جاتا رہے گا …؟کب تک انہیں لوٹا اور اجاڑا جاتا رہے گا …؟
مجھے یاد ہے کہ جب میں تقریباً اڑھائی سے تین سال کی تھیں تو مجھے بخار ہو گیا تھا اور چوٹ کی وجہ سے ہاتھ پر کٹ آ گیا تھا میرے ماں باپ مجھے ڈاکٹر خان کے پاس لے کر گئے تھے پٹی کرانے کے لیے ڈاکٹر کے کلینک پر جب ہم جا رہے تھے تو اس وقت میرے

بابا نے سفید کلف والا سوٹ  پہنا ہوا تھا پاؤں میں بلیک پشاوری سول والی چپلی اور سر پر سفید پگ باندھی ہوئی تھی میری امی نے چائے کلر کا ٹوپی والا برقع پہنا ہوا تھا میں نے اس وقت سلور کلر کی قمیض اور مساگی رنگ کی شلوار پہن رکھی تھی قمیض پر شلوار کے کلر کے پھول بنے ہوئے تھے میرے پاؤں میں ریڈ کلر کی چپل تھی آنکھوں میں سرمہ اور بالوں کی الٹی مانگ نکلی ہوئی تھی ڈاکٹر کے کلینک پر جب ہم گئے تو ڈاکٹر نے میرے سیدھے ہاتھ پر پٹی باندھی اور انجیکشن لگایا جس کی وجہ سے میرا دماغ چکرانے لگا اور میں کلینک سے باہر آ گئی اور باہر بے ہوش ہو گئی۔
پھر جب میری آنکھ کھلی تو میں نے اپنے آپ کو کچھ انجان لوگوں میں پایا تو میں گھبرا گئی اور رونے لگی ان میں سے ایک عورت نے مجھے دھکا مار کے ایک آدمی کے سامنے کھڑا کیا اور کہا کہ یہ جو آدمی سامنے بیٹھا ہے یہ آج سے تمہارا باپ ہے جا کر اسے سلام کرو جب میں نے اس آدمی کو بابا جانی کہا تو اس آدمی نے مجھے بری طرح ڈانٹ دیا میں ڈر کر پیچھے ہو گئی اس عورت نے مجھے واپس اس آدمی کے سامنے کھڑا کر دیا دوبارہ جب میں نے اسے بابا سائیں کہا تو اس نے مجھے پھر سے ڈانٹا اور کہنے لگا کہ نہ تو میں تمہارا بابا جانی ہوں اور نہ ہی بابا سائیں ہوں جس طرح میرے بچے مجھے ابا جی بولتے ہیں تم بھی یہی بولا کرو گی۔
جس شخص نے مجھے پالا ہے وہ میرے بابا کے ساتھ ایک ہی اڈے پر کام کرتا تھا محلے دار بھی تھا اور میرے بابا کا دوست بھی تھا

مگر کسی کاروباری معاملات پر ان میں جھگڑا ہو گیا تھا اور دوستی دشمنی میں بدل گئی جب میں گم ہوئی تو میرے بابا اور چچا وغیرہ شک کی بناء پر اس آدمی کے بھائی کے (اس کا بھائی بھی میرے بابا کا دوست اور کلیگ تھا) گھر جا کر میرا پوچھا تو دونوں بھائیوں نے مجھے چھپا لیا اور جھوٹی قسم اٹھا لی کہ ہمیں بچی کا نہیں معلوم قسم پر اعتبار کر کے چلے گئے اور وہ لوگ مجھے اپنے ساتھ ڈی جی خان لے کر چلے گئے اور ملتان چھوڑ دیا ہمارا گھر ملتان میں کڑی داؤد خان میں پیر نبی شاہ کے میدان میں شیدن گول گپے والے کے گھر کی بیک سائیڈ پر تھا۔
اپنے ماں باپ سے بچھڑنے کے بعد میں بہت روتی تھی اسی وجہ سے مجھے بخار ہو گیا اور میں 6مہینے بیمار پڑی رہی. میں جب جب ان سے اپنے امی بابا سے ملنے کا کہتی تو وہ لوگ مجھے مارتے اور میرا کھانا پینا بھی بند کر دیتے. میں زیادہ تر بستر پر پڑی رہتی  وہ لوگ مجھے ہر سزا کے بعد یہ کہتے کہ یہ تیرے باپ کی غلطی کی سزا ہے جو تجھے مل رہی ہے. پھر جب میں ٹھیک ہوئی  اس کے کچھ ماہ بعد اس واقعے کو تقریباً ایک سال کا عرصہ ہو چکا تھا اس ایک سال بعد وہ لوگ مجھے واپس ملتان لے کر آئے ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر اس کے ایک بھائی کا گھر تھاجس شخص نے مجھے پالا ہے اس کی والدہ مجھے میرے گھر کے سامنے لے آئی جب میں اپنے گھر کے سامنے آئی تو میں اس عورت سے ہاتھ چھڑا کر اپنے گھر کی طرف بھاگی ابھی میں اپنے گھر سے ایک قدم کی دوری پر تھی کہ اس عورت نے جھپٹ کر پکڑ لیا جب میں نے اس عورت سے کہا کہ مجھے اپنے گھر جانے دے تو شور کے ڈر سے اس عورت نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور مجھے اپنے برقع میں چھپا لیا چونکہ گرمی کا موسم تھا اور وہاں ارد گردکوئی نہیں تھا تو اس لیے اس نے مجھے برقع میں چھپا کر زبردستی واپس گھر لے آئی.
گھر آنے کے بعد انہوں نے مجھے بہت مارا کہ میں ابھی تک اپنا گھر اور گھر والوں کو بھولی کیوں نہیں اور پھر اسی دن مجھے واپس لے گئے جب وہ لوگ مجھے واپس لے کر آ رہے تھے تو ہم لوگوں نے ٹرین میں سفر کیا تھا .ٹرین میں مجھے نیند آ گئی جب میری آنکھ کھلی تو ٹرین پلیٹ فارم پر رک چکی تھی اور میں ٹرین میں اکیلی تھی اتنے میں میری نظر سامنے ایک عورت کی طرف گئی وہ عورت برقع اپنے منہ سے ہٹا کر مجھے اپنی طرف بلا رہی تھی اتنے میں اس کا آدمی بھی آگیا اس عورت نے اپنے آدمی سے کچھ کہا ابھی وہ بات کر رہے تھے کہ جس عورت نے مجھے پالا ہے اس کا بھائی دوڑا آیا اور مجھے جھپٹ کر پکڑ لیا اور پلیٹ فارم کے جنگلے کے پیچھے مجھے لے کر چھپ گئے.
پھر اس کے دو تین سال بعد وہ لوگ مجھے اپنے ساتھ بدھلہ سنت لے گئے وہاں پر مجھے اپنے بچوں کے ساتھ مالٹے کے باغ میں بھیج دیا ان کے بچے مجھے باغ لے کر گئے.  باغ میں پہنچ کر وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا تم اس باغ کو پہچانتی ہو جب میں نے انکار کیا تو وہ مجھے لے کر آگے چل پڑے مالٹے کے اس باغ میں گڑ کا ایک بھٹہ تھا اس بھٹے کے ساتھ ایک گھر بھی تھا جب ہم اس گھر کے سامنے پہنچے تو وہاں اس گھر میں سے ایک آدمی سفید سوٹ والا باہر نکل رہا تھا ابھی اس آدمی کی میں شکل دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ بچے مجھے ہاتھ سے کھینچ کر واپس لے آئے پھر اس کے بعد جب میں13 سال کی ہوئی تو انہوں نے میری شادی کر دی.
اب جب 9 سال پہلے وہ شخص جس نے مجھے پالا ہے جب وہ مرنے والا تھا تو اس نے مرنے سے کچھ دن پہلے مجھے اپنے گھر بلایا اور

کہا کہ میں تمہارا باپ نہیں ہوں یہ تم بھی جانتی ہو میں نے تمہیں صرف پالا ہے تمہارے باپ کا نام بشیر ڈوگر ہے اور وہ پرانے بہاولپور کے اڈے پر کام کرتا ہے پھر اس کے بعد اس نے اپنے بھتیجے کے ساتھ مجھے اور میرے شوہر کو میرے بابا کا گھر دکھانے بھیجا .اس شخص کا بھتیجا ہمیں میرے بابا کا گھر باہر سے دکھا کر چلا گیا میں اور میرے شوہر جب میرے بابا کے گھر گئے تو وہاں ہمیں میرا چھوٹا بھائی ملا ہم نے اسے جب سارا معاملہ بتایا تو میرے بھائی نے کہا کہ ہاں ہم وہی لوگ ہیں جن کی بیٹی گم ہوئی تھی چونکہ بابا گھر نہیں تھے اور نہ ہی امی گھر تھیں تو ہم واپس آ گئے.
اپنی امی بابا سے ملنے گئی تو امی بابا گھر نہیں تھے میری بھاوجیں اور بہن بیٹھی تھی میری بھاوجوں نے مجھے کہا کہ اب تو تیری شادی بھی ہو گئی ہے اب تجھے ماں باپ کی کیا ضرورت جاؤ اپنے گھر خوش رہو اور ہمیں بھی سکون سے رہنے دو  پہلے بھی تیرے ماں باپ دونوں بیمار رہتے ہیں انہیں تنگ نہ کرو۔
پھر میرے چھوٹے بھائی نے مجھے اشرف کا نمبر دیا اور کہا کہ  اشرف (اچھو) تیسرے نمبر کا بھائی ہے اور گھر کے تمام معاملات وہی دیکھتا ہے آپ اس سے رابطہ کریں وہ آپ کا معاملہ حل کر دے گا۔ اس سارے عرصے میں ہم نے ہر ممکن کوشش کی امی بابا سے ملنے کی مگر اشرف نے مجھے امی بابا سے ملنے نہ دیا اس عرصے میں بابا ہارٹ اٹیک سے چل بسے اس نے مجھے بابا کے انتقال کی خبر بھی نہیں دی ۔کچھ وقت بعد جب میں پھر امی بابا سے ملنے گھر گئی تو مجھے پتہ چلا کہ بابا چل بسے ہیں میں نے بھائی سے امی سے ملنے کا کہا تو اس نے مجھے امی سے پھر بھی نہ ملنے دیا یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ابھی ہمارے مسائل ہیں دو تین ماہ بعد میں آپ کو بلاؤں گا آ کر امی سے مل لینا ۔پھر جب کچھ مہینوں بعد میں خود امی سے ملنے گئی تومیرے بھائیوں اشرف اور مشرف نے  مجھے ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا حالانکہ میں بیمار تھی اور میرے بھائی یہ بات جانتے تھے پھر بھی انہوں نے مجھے ڈرا دھمکا کر گھر سے نکال دیا میں نے فون پر بھی رابطہ کر نے کی کوشش کی مگر وہ کوئی جواب نہیں دیتا جب بھی باہر نکلتی ہوں تو میری حفاظت کے لیے بھائیوں اور بھتیجوں کو بھیجتا ہے مگر مجھے امی سے پھر بھی ملنے نہیں دیتا۔
ہمارے گھر کے قریب ماڈل بازار ہے میرے بھائی وہاں پر کام کراتے ہیں جب میں اپنی بیٹی کے ساتھ بازار شاپنگ کرنے گئی تو وہاں میرا بھائی اپنے ملازموں کے ساتھ کھڑا تھا جیسے ہی ہم سامنے گئے تو میرے بھائی نے ان بندوں سے خاموش رہنے کا کہا جب ان آدمیوں میں سے ایک بندے نے پوچھا کہ ڈوگر صاحب آپ کیسے جانتے ہیں  یہ تو شریف لوگ ہیں ابھی اس کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ میرا بھائی چیخ پڑا کہ خبردار کوئی بکواس کی یہ میری سگی بہن ہیں میری ماں باپ جائی ہے.
میں چپ چاپ کھڑی سوچتی رہی کہ میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوا …؟ اور اب ظلم کیے جانے کی وجہ کیا ہے …؟ کیا ایک بیٹی کو اس لیے ٹھکرا دینا چاہیے اس کے وجود سے انکار کر دینا چاہیے کہ اسے جائیداد میں سے حصہ دینا پڑے گا …؟
نوٹ : یہ قیامت شبانہ زاہد ڈوگر پر گزری ، اور یہ داستان خود ان کی بیان کردہ ہے ، ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں