تحریر:طیبہ بخاری
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمی سوگئے داستان کہتے کہتے
آج ہم آپ کو داستان سنائیں گے اردو کے معروف شاعر ثاقب لکھنوی کی۔اردو کے اس اہم ترین وبے مثل شاعر نے زندگی کے کئی نشیب و فراز دیکھے 2 جنوری 1869ءکو آگرہ میں پیدا ہوئے ،اصل نام مرزا ذاکر حسین قزلباش تھا۔ ثاقب تخلص اور لکھنو سے تعلق کی بنا ءپر لکھنوی کہلاتے تھے۔اردو شاعری آپ کے تذکرے اور کلام کے بناءادھوری تصور کی جاتی ہے لیکن یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ثاقب لکھنوی کے احوال زندگی کے حوالے سے تاریخ میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔
پیدائش آگرہ میں ہوئی ۔ آپ کے والد ماجد مولوی آغا عسکری قزلباش جو مرزا محمد حسین کے نام سے مقبول تھے برطانوی سرکار کے ملازم تھے ، مرزا صاحب کا تبادلہ لکھنو ہوا تو ثاقب بھی خاندان کے ہمراہ لکھنو جا بسے ۔ثاقب لکھنوی نے ابتدائی تعلیم گھر سے ہی حاصل کی ، آپ کی والدہ عربی ، فارسی اور اردو 3زبانوں پر عبور رکھتی تھیں انہوں نے ثاقب کی تعلیم و تربیت میں انتہائی اہم
کردار ادا کیا ۔ جب والدہ نے دیکھا کہ ثاقب اب ان 3زبانوں میں ملکہ حاصل کر چکے ہیں تو انہوں نے انگریزی زبان میںا علیٰ تعلیم دلوانے کی غرض سے ثاقب کو دوبارہ آگرہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ۔آگرہ میں ثاقب نے سینٹ جانسن کالج میں انٹرمیڈیٹ تک انگریزی تعلیم حاصل کی ۔
ثاقب نے دس گیارہ سال کی عمر سے شعر کہنا شروع کر دئیے تھے ، یہ فن قدرت نے آپ کو خاص عطیہ کیا تھا یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں آپ کا کوئی استاد نہیں ملتا ، ثاقب نے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا ذکر اپنے والد سے کبھی نہ کیا ، مشاعروں میں اس لیے نہ جاتے کہ کہیں والد صاحب کو خبر نہ پہنچ جائے ۔طویل عرصے تک ان کے والد ثاقب کے اس فن سے لا علم رہے ۔
ثاقب لکھنوی کے حالات زندگی بیان کریں تو انہوں نے روزگار کیلئے تجارت کا انتخاب کیا مگر افسوس ان کا یہ انتخاب درست ثابت نہ ہوا اورگھر کی ساری جمع پونجی ضائع ہوگئی۔تجارت میں ناکامی کے بعد ملازمت کا سوچا 1906ءمیں ایران کے سفارت خانہ میں ملازم ہو گئے
ثاقب لکھنوی کی شاعری کا دور 6دہائیوں پر محیط رہا ، آپ کی شاعری میں کرب اور صبر کارنگ نمایاں ملتا ہے ، آپ کے مجموعہ کلام” دیوان ثاقب“ مقبول خاص و عام ہوا ۔
1908ءمیں مہاراجا محمود آباد سے تعلق ہو گیا اور میر منشی کا عہدہ ملا۔ مگر تقسیم ہند کے بعد جب یہ عہدہ ختم ہوا تو ثاقب بھی گمنام ہو گئے اور یاد الٰہی میں خود کو ایسا گم کیا کہ دنیا سے بالکل کنارہ کشی اختیار کر لی۔اسی عالم میں 2 سال بعد 80 سال کی عمر میں 24 نومبر 1949ءکو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ثاقب لکھنوی کے بہت سے اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔
کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے
جوانی نہ رہتی تو پھر ہم نہ رہتے
نشیمن نہ جلتا نشانی تو رہتی
ہمارا تھا کیا ٹھیک رہتے نہ رہتے
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمی سوگئے داستان کہتے کہتے
کوئی نقش اور کوئی دیوار سمجھا
زمانہ ہوا مجھ کو چپ رہتے رہتے
مری ناو اس غم کے دریا میں ثاقب
کنارے پہ آہی گئی بہتے بہتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باغ باں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا، وہی پتے ہوا دینے لگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقت دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلا دینے لگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہنے کو مشت پر کی اسیری تو تھی،
مگر خاموش ہوگیا ہے چمن بولتا ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کے قصے کہاں نہیں ہوتے ہاں،
وہ سب سے بیاں نہیں ہوتے