چمپئی ( نیٹ نیوز ) برطانوی اخبار”گارڈین ” کا دعویٰ ہے کہ میانمار کے لڑاکا طیاروں نے بھارت میں بم گرا ئے ہیں .اخبار کی رپورٹ کے مطابق میانمار کی فضائیہ نے بھارتی سرحد کے قریب جمہوریت کی حامی فورسز کے ٹریننگ کیمپ پر حملہ کیا ہے۔میانمار کے لڑاکا طیاروں نے بھارتی حدود میں 2 بم گرائے ہیں۔باغی کمانڈر نے برطانوی اخبار کو تصدیق کی کہ منگل کی دوپہر میانمار نے ریاست چن کے کیمپ وکٹوریا پر بمباری کی۔کیمپ وکٹوریا چن نیشنل آرمی کا ہیڈکوارٹر ہے، یہ ایک مسلح گروپ ہے جو دیگر باغی گروپوں کے ساتھ مل کر میانمار میں جمہوریت بحال کرنا چاہتا ہے۔چن نیشنل آرمی کا ٹریننگ کیمپ بھارتی ریاست میزورام سے چند کلومیٹر کے
فاصلے پر ہے۔ایک اور باغی جنگجو نے بتایا کہ میانمار کے لڑاکا طیاروں نے کیمپ پر متعدد بم گرائے جس سے افراتفری مچ گئی۔کچھ باغیوں کا کہنا تھا کہ لڑاکا طیاروں نے دریائے تیاؤ پار کیا، یہ دریا بھارت اور میانمار کے درمیان سرحد ہے۔ریاست میزورام کے فرکاواں گاؤں میں مقامی افراد نے بتایا کہ 2 بم بھارتی حدود میں گرے لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔گاؤں کی کونسل کے صدر راما نے تصدیق کی کہ بھارتی حدود میں بم گرے جس سے افراتفری مچ گئی۔ ہماری طرف ایک ٹرک فضائی حملے میں تباہ ہوگیا جو تیاؤ دریا کے پاس کھڑا تھا۔”جنگ ” کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ میانمار سے کچھ لوگ سرحد پار کر کے یہاں آئے اور گاؤں والے ان کی اور زخمیوں کی مدد کر رہے ہیں۔صدر گاؤں کونسل نے کہا کہ بمباری تین لڑاکا طیاروں اور دو ہیلی کاپٹرز نے کی تھی۔باغی کمانڈر کے مطابق فضائی حملے میں 7 جنگجو ہلاک ہوئے جن میں ایک خاتون بھی شامل تھی جبکہ 20 جنگجو زخمی ہوئے۔
دوسری جانب میانمار سرحد پر تعینات بھارتی فوج کی ’آسام رائفلز‘ کے سینئر افسر نے بھارتی خبر رساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی سرحد کے قریب پڑوسی ملک کے اندر کئی دھماکے ہوئے۔ معاملے کی مکمل چھان بین کے بعد سرکاری بیان جاری کیا جائے گا۔چمپئی کے ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ مقامی رہائشیوں کی طرف سے کیے جانے والے دعووں کی تصدیق کے لیے مجسٹریٹ کو جائے وقوعہ پر بھیجا گیا ہے۔
????BREAKING
Following reports of cross-border activity by the Myanmar Air Force earlier today, Myanmar Witness has geolocated footage of the airstrikes filmed from the Indian side of the border.
Email info@myanmarwitness.org for details. #WhatsHappeningInMyanmar pic.twitter.com/YMKhbTL6QX— Myanmar Witness (@MyanmarWitness) January 10, 2023