تحریر :طیبہ بخاری
عوام بہت کچھ سوچ رہے ہیں
آخر ہو کیا رہا ہے …….عوام یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ
▪️وہ نیوٹرل کیا ہوئے، یہ بدمعاش ہوگئے
▪️ ایمپائر کی غیر جانبداری (neutrality ) کی ڈیمانڈ کرنے اور اسکے فوائد کا ورد پکارنے والے اب آئین سے کھلواڑ کر رہے ہیں
▪️اداروں نے جانبداری کیا دکھائی ملک میں تماشہ لگ گیا اور ملک ایک آئینی جمود اور بحران سے گزر رہا ہے
▪️سیاستدان آئین میں لکھے ہوئے مسلم اور آسان مندرجات پر عمل درامد کرنے سے کیوں قاصر ہیں؟
پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہو چکی، کون ہے اس سب کا ذمہ دار …؟
▪️ آئین پر عمل کرنے کے بجائے انتشار، غیر ضروری معرکہ آرائ اور زبردستی کا راستہ کیوں اپنایا گیا۔
▪️پنجاب اسمبلی میں سیاستدان ایک اجلاس بلا کر ووٹنگ تک نہیں کروا پارہے
▪️ بار بار اجلاس بلوا کر کینسل ہو جاتا ہے، ایک سرکس لگا ہوا ہے، بندر کے ہاتھوں ماچس لگ گئی ہے
▪️کوئی یہ کہنے والا نہیں کہ آپ شکست تسلیم کریں اور قانونی و آئینی عمل کو آگے بڑھائیں۔
اس کے علاوہ غیر ملکی اخبارات میں کیا کچھ نہیں لکھا جا رہا …..کیا کیا گند نہیں اچھالا جا رہا ….
کیا یہ بھی ملک و قوم کی خدمت ہے ….؟
یہ کونسی جمہوریت ہے ………کون سا انصاف ……..کون سی تہذیب اوور کون سی روایات ہیں …….
سوشل میڈیا پر کیا کچھ نہیں آ رہا ….ہمارے ہی ملک کے ایک نامور صحافی اور اینکر جن کی ایک بڑی سیاسی جماعت بہت دلدادہ ہے اور اسی جماعت کے سربراہ کے کہنے پر دوبارہ نجی ٹی وی چینل پر انکا پروگرام شروع کیا گیا . اب اسی صحافی نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں مضمون لکھا ہے جس کی زبان اور جس کے الفاظ کی کسی بھی طور تحسین نہیں کی جا سکتی بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسی لفاظی ملک کیلئے خطرناک اور ڈسٹربنگ ہے۔معروف
صحافی نے یہ کہے بغیر امریکہ سے التجا کی کہ عمران خان کو راستے سے ہٹا دیا جائے کیونکہ یہ امریکی مفادات کے لئے سنگین خطرہ ہے۔ اور اس کام کے لئے بہترین وقت اب ہے۔صحافی نے اپوزیشن کی دو جماعتوں کے سربراہان کو پاکستان میں جمہوریت کے چیمپئنز قرار دیا ۔ اور عمران خان کو مذہبی شدت پسندوں، دہشت گردوں، لبنان کی حزب اللہ، ایران، روس، ولادی میر پوتن اور ڈونلڈ ٹرمپ کا خطرناک ساتھی قرار دیا ۔ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ سے پرزور اپیل کی کہ جیسے اس نے ٹرمپ کو ہٹایا تھا اسی طرح پاکستان میں سازشی قوتوں کی مدد کریں کہ عمران خان کو روکا جائے۔لیکن پھر انہوں نے کہا کہ یہ شخص الیکشن ہارنے کے بعد بھی آرام سے نہیں بیٹھے گا اور مستقل امریکہ اور جمہوریت کے لئے خطرہ بنا رہے گا (اس لئے بہتر ہے اس کو ختم ہی کر
دیا جائے)۔اور ساتھ ہی معروف صحافی نے ایک جنرل پر بھی سنگین الزامات لگائے اور یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی کہ یہ محب وطن جنرل فوج کے اندر امریکی مفادات کے خلاف کام کررہا ہے اور عمران خان کا ساتھ دے رہا ہے۔مضمون کی زبان وہ ہے جسے یہ صحافی لکھنے کا اہل نہیں ہے۔ یہ خالص امریکی idiom میں لکھی گئی تحریر ہے جس کے لئے کم از کم حسین حقانی جیسے شخص کی تحصیلات qualification چاہیے۔ ہوسکتا ہے مضمون دونوں نے ملکر لکھا ہو۔ یا کسی اور ایجنٹ نے صحافی کی مدد کی ہو۔واشنگٹن پوسٹ کیٹل ہل، وائٹ ہاؤس، لینگلی، اور پینٹاگون میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار ہے۔ صحافی کا اس اخبار میں اس طرح کے مضمون لکھنا بہت ہی تشویشناک ہے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اس تحریر کی مزید تفصیلات میں جانا یہاں مناسب نہیں ، جتنا کچھ پردے میں رہ کر اور ملک و قوم کے مفاد میں شائع کیا جا سکتا تھا ہم نے کیا ….فیصلہ عوام اور وقت کے ہاتھ میں ہے …….