متعلقہ

جمع

جب خوشیاں اور غم سانجھے تھے

Spread the love

تحریر : ڈاکٹر محمود احمد کاوش

میرا بچپن  شکرگڑھ تحصیل کی سرحد پر واقع ایک گاؤں میں گزرا۔ اس گاؤں کا نام موہلن تھا۔  موہلن کا مطلب کیا ہے، یہ تو معلوم نہیں۔ البتہ گاؤں والوں کے نزدیک  یہ دو پنجابی لفظوں “موہ” اور “لین” سے مل کر بنا ہے یعنی موہ  لینے والے۔ گاؤں سے وابستہ میری یادیں آج 60سال گزر جانے کے باوجود اِس طرح تروتازہ ہیں جیسے ابھی کل ہی کی بات ہو۔اُس زمانے میں گاؤں کے سبھی مکانات ایک جیسے تھے۔ رہن سہن بھی سبھی کا یکساں تھا۔ خواہشات نے ابھی چادر سے باہر پاؤں نہیں پھیلاۓ تھے۔ سبھی کی خوشیاں اور غم سانجھے ہوتے تھے۔ اُخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کا زمانہ تھا۔سبھی ایک جیسے سماجی مقام و مرتبے کے مالک تھے۔ معاشی حالت بھی سبھی کی ایک جیسی تھی۔ اگر یہ کہا جاۓ کہ پوری بستی اخوت اور بھائی چارے کی لڑی  میں پروئی ہوئی تھی تو بے جا نہ ہو گا۔ ہر خاندان کا دارومدار زراعت  پر تھا۔ ہر گھر میں مرغیاں ہوتی تھیں۔ بھینس بھی قریب قریب  ہر گھر کی ملکیت تھی۔ ہر چیز خالص تھی۔ زندگی سادہ تھی۔  سادہ لباس، سادہ خوراک، سادہ گھر اور سادہ عادات۔ تکلف اور بناوٹ نام کو نہیں تھے۔ دل کی بیماریوں اور شوگر جیسے امراض نے ابھی گاؤں کا رُخ نہیں کیا تھا .

اُس زمانے میں مشینوں کی فراوانی نہیں ہوئی تھی، اس لیے احساسِ مروت ابھی کچلا نہیں گیا تھا۔ کھیتی باڑی کے سارے کام ہاتھوں سے کرنے پڑتے تھے۔ لوگوں کا دن سورج نکلنے سے بہت پہلے شروع ہو جاتا تھا۔ وقت دیکھنے کے لیے گھڑیاں تو تھیں نہیں۔ رات کو ستاروں کو دیکھ کر اور دن کوسورج کو  دیکھ کر وقت کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔ مرغ کی بانگ بھی نیند کے ماتوں کو جگانے کے کام آتی تھی۔ کسان اپنے بیلوں کو لیے ہل چلانے کی غرض سے کھیتوں کا رُخ کیا کرتے تھے۔ بیلوں کے گلے میں بندھی گھنٹیاں رات کے سناٹے کو چیرتیں ۔ ان کامتوازن اور سریلا آہنگ  کانوں کو بھلا لگتا۔

خواتین بھی  علی الصباح جاگ جاتیں۔ ہر گھر میں آٹا پیسنے کی چکی ہوتی۔ صبح سویرے چکی کے چلنے کی آوازیں  کانوں میں رس گھولتیں۔ یہ مشقت طلب اور وقت طلب کام ہوتا۔ اس سے بازوؤں کی خوب ورزش ہوتی۔سگھڑ خواتین صرف ایک دن کا آٹا نہیں پیستی تھیں، بلکہ کچھ زیادہ پیسا کرتیں تاکہ اگلے چند دنوں کے لیے بچا کے بھی رکھ لیا جاۓ۔ چکی سے فراغت ملتے ہی دہی بلونے کا مرحلہ شروع ہو جاتا۔ ابھی بجلی تو آئی نہیں تھی، اس لیے یہ کام بھی ہاتھوں ہی سے کرنا ہوتا تھا۔ اس کام میں بھی بازوؤں کی طاقت خوب کام آتی تھی۔ مکھن نکالنے کے بعد بھینسوں یا گایوں کا دودھ دوہنے کا کام درپیش ہوتا۔ مویشی خانے ، گھر سے کچھ فاصلے پر ہوتے۔ خواتین دودھ دوہنے کے لیے اُدھر کا رُخ کیا کرتیں۔ مفت میں صبح کی سیر ہو جاتی۔ دُودھ دوہنے میں بھی ہاتھوں اور بازوؤں کی قوت سے کام لیا جاتا۔
گھر بھی عموماً بہت کشادہ ہوتے۔ بڑے بڑے کچے صحنوں کی صفائی کوئی آسان کام نہ تھا۔ ان سب کاموں کو نمٹا کر ناشتا تیار کرنے کی باری آتی۔ اُس زمانے میں ہم نے بریڈ اور آملیٹ کا نام تک نہیں سنا تھا۔ خواتین موٹی موٹی روٹیاں پکاتیں۔ یہ روٹیاں خوب پھول جایا کرتیں۔ اوپر کا باریک چھلکا ایک طرف کر کے ان میں تازہ مکھن بھر دیا جاتا۔ تازہ لسی کا کٹورا ساتھ ہوتا۔بہت ہوا تو آم، لسوڑے، آملے اور مرچ کا اچار ساتھ ہوتا۔ مکھن بھری روٹی اور اچار وہ مزہ دیتے کہ آج کسی پنج ستارہ ہوٹل کے انواع و اَقسام کے  کھانوں میں   بھی وہ لذت کہاں! کسان کھیتوں میں کام کر رہے ہوتے تو خواتین اُن کا کھانا لے کر کھیتوں کا رُخ کیا کرتیں۔ لوگ بہت قناعت پسند تھے۔ کھانا کھا کر رب کا شکر ادا کرتے۔
گاؤں کی زندگی میں کنویں کی اپنی اہمیت ہوتی تھی۔ ظاہر ہے ہر کسان کے پاس اپنا کنواں تو ہوتا نہیں تھا۔ جن کسانوں کی ملکیت کنواں نہیں ہوتا تھا، وہ آب پاشی کے لیے اُن کسانوں کے محتاج ہوتے تھے جو کنووں کے مالک ہوتے تھے۔ کنویں کا مالک اپنے کھیتوں کو سیراب کر لیتا تو وہ دُوسرے کسانوں کو  باری دیتا۔ اس طرح مل جل کر سبھی کے کھیت سیراب ہو جاتے۔
آج کی نسل کو کیا معلوم کہ گندم کی کٹائی اور گہائی کس قدر مشقت طلب کام تھے۔ اب تو ہارویسٹر اور کمبائن مشینیں گھنٹوں میں ایکڑوں  گندم کا صفایا کر دیتی ہیں، لیکن ان ایجادات سے پہلے سارے کام ہاتھوں سے انجام پاتے تھے۔ کٹائی سے پہلے نئی درانتیاں بنوائی جاتیں، پرانی درانتیوں کے دندانے تیز کراۓ جاتے ۔ گندم کاٹ کر انھیں گٹھوں میں باندھا جاتا۔ کسی مرکزی جگہ پر ان گٹھوں کے ڈھیر لگاۓ جاتے ۔ گہائی کے لیے لکڑی کے ایک چوکھٹے پر درختوں کی شاخیں، گندم کی بالیاں ڈالی جاتیں۔ اس طرح تیار ہونے والی ساخت کو “پھلا” کہتے تھے۔ ایک دائرے میں گندم کے گٹھے کھول کر بکھیر دِیے جاتے۔ بیل اس پھلے کو کھینچتے۔ کبھی کبھار کوئی بچّہ اس پھلے پر بیٹھ کر لطف اٹھاتا تھا۔ کسان بیلوں کے ساتھ ساتھ چکر پر چکر کاٹتا رہتا۔ صبح سے شام تک یہ کام جاری رہتا ۔ اتنی مشقت کے بعد پندرہ بیس گٹھوں کی گہائی ہوتی۔ کام یہیں ختم نہیں ہوتا تھا۔ اب دانوں کو بھوسے سے الگ کرنے کا مرحلہ درپیش ہوتا تھا۔ اس مقصد کے لیے چھاج کام آتے۔ ہوا چلتی تو کام آسان ہو جاتا۔ ہوا بند ہو جاتی تو یہ کام بھی رُک جاتا۔ غرض کٹائی اور گہائی کے کام میں مہینے صرف ہو جاتے۔
گرمیوں میں دن بہت سخت اور لمبے ہوتے ہیں۔ عام طور پر گیارہ بجے تک اپنے کام مکمل کر کے لوگ “دَیرے” میں ڈیرے ڈال دیتے۔ ہر گاؤں میں ایک “دَیرا” ہوتا تھا۔ عموماً یہ مسجد کے ساتھ کھلی جگہ ہوتی۔ یہاں پر برگد کا درخت گرمی سے ستاۓ ہوۓ گاؤں کے باسیوں کو اپنے بازو کھول کر سایہ فراہم کرتا۔ دوپہر کے وقت اس جگہ پر خوب رونق ہوتی۔  ہمارے گاؤں  کے “دَیرے”  میں بھی ایک برگد کا بوڑھا درخت تھا۔ بچّے، جوان ، بڑے بوڑھے اپنی چارپائیاں اُٹھاۓ برگد کی گھنی چھاؤں میں آ جاتے۔ خوب رونق ہوتی۔ حقوں کی گُڑ گُڑ کی آوازیں آ رہی ہوتیں۔ وقت گزاری اور تفریح کے لیے  میاں  محمد بخش  کی سیف الملوک  یا مولوی غلام رسول کی یوسف زلیخا سنی جاتی۔ ہمارے گاؤں میں چاچا بشیر  اور چاچا منشی ان کتابوں کو پڑھ سکتے تھے۔ چناں چہ وہ ایک مخصوص ترنم کے ساتھ اس کتاب سے کچھ کلام پڑھتے۔ سامعین حقہ پیتے جاتے اور ساتھ ہی ساتھ شاعری سے بھی لطف اندوز ہوتے۔
دوپہر کے وقت تنور پر روٹیاں پکائی جاتیں۔ عام طور پر محلے کے کسی ایک مرکزی گھر میں تنور جلایا جاتا اور پورا محلہ باری باری یہاں روٹیاں پکاتا۔ اس روٹی کا اپنا مزہ ہوتا تھا۔ اسی طرح خواتین دست کاری میں مہارت رکھتی تھیں۔  گرمی کی طویل دوپہروں میں کھجور کے پتوں سے چنگیریں اور پنکھیاں بناتیں، چادروں پر کڑھائی کرتیں یا کروشیے کا کام کرتیں۔
اُس زمانے میں گاؤں میں  تعلیم کی روشنی ابھی عام نہیں ہوئی تھی۔ گاؤں کے چند ایک نوجوان فوج میں ملازم تھے۔ میرا ایک چچا زاد بھائی محکمہ تعمیرات میں سب ڈویژنل آفیسر تھا۔ متعدد نوجوان  کراچی جا کر محنت مزدوری  کرتے تھے۔ اہلِ خانہ سے ان کا رابطہ خطوں کے وسیلے سے ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے محلے میں جب کسی کے ہاں چٹھی آتی تو پڑھنے کے لیے مجھے بلایا جاتا۔ چٹھی کا جواب بھی مجھ سے لکھوایا جاتا تھا۔
میرے بچپن میں گاؤں میں2ریڈیو سیٹ تھے۔ ان میں سے ایک میرے تایا خیرالدین کے گھر میں تھا۔ مجھے خوب یاد ہے سرشام محلے کے بیس پچیس بزرگ تایا جان کے گھر پہنچ جاتے۔ آٹھ دس چارپائیاں گھر کے صحن میں بچھا دی جاتیں۔  بزرگ حقے کے کش لگاتے جاتے اور نظام دین، قائم دین اور چودھری صاحب  کی باتوں سے محظوظ ہوتے جاتے۔ اُس زمانے میں اُن لوگوں کی یہ بہت بڑی تفریح تھی۔