میرا بچپن شکرگڑھ تحصیل کی سرحد پر واقع ایک گاؤں میں گزرا۔ اس گاؤں کا نام موہلن تھا۔ موہلن کا مطلب کیا ہے، یہ تو معلوم نہیں۔ البتہ گاؤں والوں کے نزدیک یہ دو پنجابی لفظوں “موہ” اور “لین” سے مل کر بنا ہے یعنی موہ لینے والے۔ گاؤں سے وابستہ میری یادیں آج 60سال گزر جانے کے باوجود اِس طرح تروتازہ ہیں جیسے ابھی کل ہی کی بات ہو۔اُس زمانے میں گاؤں کے سبھی مکانات ایک جیسے تھے۔ رہن سہن بھی سبھی کا یکساں تھا۔ خواہشات نے ابھی چادر سے باہر پاؤں نہیں پھیلاۓ تھے۔ سبھی کی خوشیاں اور غم سانجھے ہوتے تھے۔ اُخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کا زمانہ تھا۔سبھی ایک جیسے سماجی مقام و مرتبے کے مالک تھے۔ معاشی حالت بھی سبھی کی ایک جیسی تھی۔ اگر یہ کہا جاۓ کہ پوری بستی اخوت اور بھائی چارے کی لڑی میں پروئی ہوئی تھی تو بے جا نہ ہو گا۔ ہر خاندان کا دارومدار زراعت پر تھا۔ ہر گھر میں مرغیاں ہوتی تھیں۔ بھینس بھی قریب قریب ہر گھر کی ملکیت تھی۔ ہر چیز خالص تھی۔ زندگی سادہ تھی۔ سادہ لباس، سادہ خوراک، سادہ گھر اور سادہ عادات۔ تکلف اور بناوٹ نام کو نہیں تھے۔ دل کی بیماریوں اور شوگر جیسے امراض نے ابھی گاؤں کا رُخ نہیں کیا تھا .