متعلقہ

جمع

عشق کو فریاد لازم تھی سو وہ بھی ہو چکی

Spread the love

تحریر :ڈاکٹر محمود احمد کاوش
ہر قوم اپنی ملکی ضرورتوں، تقاضوں، روایات، تہذیب و ثقافت اور دیگر عوامل کے مطابق اپنا نصاب تعلیم وضع کرتی ہے۔ یہ نصاب قومی امنگوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اسی نصاب کے مطابق تعلیمی اداروں میں نوجوان نسل کی ذہنی، اخلاقی،  علمی، نفسیاتی، جذباتی اور معاشرتی تعلیم و تربیت کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد یہ دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کسی طالب علم نے کس حد تک نصابی تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال لیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ عمل اساتذہ کی کارگزاری کو جانچنے کا ایک پیمانہ ہے۔ اب اگر دست یاب  پیمانہ ایسا نہیں جو مطلوبہ استعداد اور رویوں کی ٹھیک ٹھیک پیمائش کر سکے اور ہم بار بار اسی غلط پیمانے سے پیمائش کیے جا رہے ہوں تو ہماری فہم و فراست اور عقل و دانش پر سوال اٹھے گا۔ یہ ایک بہت اہم موضوع ہے۔ پیمانے کی درستی کے بغیر معیاری تعلیم کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ آج کی اس تحریر میں اسی اہم مسئلے کے بعض پہلوؤں پر بات کی جائے گی۔
مثال کے طور پر آپ کو کپڑے کی پیمائش کرنی ہے تو آپ کو اس مقصد کے لیے میٹر درکار ہو گا۔ تیل کی پیمائش کے لیے لیٹر کا پیمانہ مطلوب ہو گا۔ چینی کی پیمائش کے لیے کلوگرام کی ضرورت پیش آئے گی۔ اگر آپ میٹر سے چینی کی پیمائش کرنا چاہیں گے یا لٹر سے کپڑا ماپنا چاہیں گے تو یہ کارآمد پیمانے نہیں ہوں گے۔
ہمارے ہاں جو نظام امتحانات مروج ہے، اُسے قلم و قرطاس ( پنسل اینڈ پیپر ) ٹیسٹ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔کیا قلم اور قرطاس پر مبنی ٹیسٹ سے آپ طلبہ کی تمام صلاحیتوں کا جائزہ لے سکتے ہیں؟ کیا اس قسم کے ٹیسٹ میں اس قدر جامعیت ہے کہ یہ طلبہ کے ہر قسم کے اکتساب کا ٹھیک ٹھیک جائزہ لے سکے؟ کیا اس طرز کے ٹیسٹ سے برآمد ہونے والے نتائج کو مستند اور معتبر کہا جا سکتا ہے؟ اور اگر ان سوالات کا جواب منفی میں ہے تو پھر اس صورت حال میں کیا کیا جائے۔
ہم سکولوں میں طلبہ کو مختلف مضامین پڑھاتے ہیں۔ ہم انھیں اُردُو اور انگریزی پڑھاتے ہیں۔ مذہبی تعلیمات سے آشنا کرتے ہیں۔ معاشرت اور پاکستانیت کے بارے میں بتاتے ہیں۔ سائنس کی مختلف شاخوں( طبیعات، کیمیا، حیاتیات ) سے آگاہی بخشتے ہیں۔ ہم اپنے طلبہ کو ریاضی، الجبرے اور جیومیٹری کے تصورات کا شعور دیتے ہیں۔ یقینی طور پر یہ سب مضامین/ علوم بہت ضروری ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان سب مضامین/ علوم کو ایک ہی طریقے سے پڑھایا اور سکھایا جا سکتا ہے۔ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے۔ بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ کسی ایک مضمون/علم کو پڑھانے کے لیے مختلف طریقہ ہائے تدریس اور تدابیر سے کام لینا پڑتا ہے۔ جب تدریسی طریقوں میں تنوع ضروری ہے تو پھر جائزے کے طریقوں میں بھی تنوع کا ہونا ضروری ہو جاتا ہے۔
آئیے۔ ایک نظر اُردُو کے مضمون کی تدریس کے مقاصد پر ڈالتے چلیں۔ یکساں قومی نصاب میں اُردُو زبان کی تدریس کا مقصد طالب علم کو نو مہارتوں کی تعلیم دینا ہے۔ ان میں سننا، بولنا، پڑھنا، تقریر، لکھنا، تخلیقی لکھائی / انشا پردازی، استحسان و تنقید اور روزمرہ زندگی کی مہارتیں شامل ہیں۔
اب باری باری ہر مہارت پر مختصر بات کرتے ہیں۔  پہلی مہارت ہے سننا۔ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کوئی طالب علم کس قدر اچھا سامع ہے، وہ بات سن کر کس حد تک اس کا فہم و ادراک کرتا ہے۔ تو اس مہارت کا جائزہ ہم روایتی تحریری امتحان سے کیسے لے سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے تو طالب علم کو سماعت سے متعلقہ ٹیسٹ سے گزرنا ہو گا۔ دوسری مہارت کا تعلق بولنے سے ہے۔ کوئی طالب علم اپنے مافی الضمیر کے اظہار پر کس پائے کی قدرت رکھتا ہے، اس کا ذخیرۂ الفاظ کیسا ہے، وہ موقع و محل کے مطابق موزوں الفاظ کا چناؤ کرتا ہے، اُس کی آواز کا زیر و بم، بولنے کی رفتار، تلفظ، آواز کی پچ وغیرہ کا جائزہ لینے کے لیے اُس سے گفت گو کرنی ہو گی۔ تبھی ہمیں معلوم ہو سکے گا کہ وہ اِس مہارت میں کس درجے پر ہے۔ تیسری مہارت پڑھنے سے متعلق ہے۔ کیا  طالب علم روانی اور آسانی سے پڑھ سکتا ہے؟ کیا اس کا تلفظ معیاری ہے؟ کیا اُس کی رفتار مناسب ہے؟ کیا دِیے گئے متن اور اُس کی آواز کے اُتار چڑھاؤ میں مطابقت ہے؟ ان سوالات کا جواب اُسی وقت مل سکتا ہے جب ہم طالب علم کو نظم و نثر کے اقتباسات پڑھتے ہوئے سنیں۔ چوتھی مہارت تقریر ہے۔ یہ بولنے سے تھوڑی مختلف ہے۔کسی مجمعے کے سامنے کسی موضوع پر مربوط،  مدلل، جامع اور متاثر کن بیان کو ہم تقریر کے زمرے میں لاتے ہیں۔ عمر بھر تعلیم کے دشت کی سیاحی کرنے کے بعد میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ بہت کم طالب علم اِس فن کے ماہر ہوتے ہیں۔ سٹیج پر آتے ہی طلبہ کی ٹانگیں کپکپانا شروع کر دیتی ہیں اور وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ اس کا بڑا سبب اُن کو اِس میدان میں تربیت فراہم نہ کرنا ہے۔ کسی زمانے میں سکولوں میں باقاعدہ بزمِ ادب کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ اس پلیٹ فارم سے طلبہ کی جھجک دُور ہوتی تھی۔ وہ پُر اعتماد انداز میں سامِعین و حاضرین کا سامنا کرنے کے قابل ہو جاتے تھے۔ افسوس! یہ اہم سرگرمی ہماری آنکھوں کے سامنے دم توڑ گئی۔ اس موضوع پر کبھی تفصیل سے بات ہو گی۔
جہاں تک تخلیقی لکھائی یا انشاء پردازی کی مہارت کا سوال ہے تو یہاں بھی صورت حال انتہائی خراب ہے۔ ہمارے پوزیشن لینے والے طالب علم بھی اکثر و بیش تر اِس صلاحیت سے عاری نظر آتے ہیں۔ جماعت نہم اور دہم کے لیے پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور نے “قواعد و انشاء” کے نام سے ایک کتاب مرتب کروا رکھی ہے۔ اس میں جو مضامین،  خطوط، درخواستیں اور کہانیاں شامل ہیں،  سوالیہ پرچہ مرتب کرنے والا سوالیہ پرچے میں انھی میں سے سوالات شامل کرنے کا پابند ہے۔ جو طالب علم زیادہ رٹا لگا سکتا ہے اور کتاب میں دیے گئے جوابات کو جوابی پرچے پر لکھ سکتا ہے، وہی کامیاب و کامران ہے۔ ایسے میں تخلیقی صلاحیت پیدا ہونے کی امید رکھنا محض خوش فہمی ہو سکتی ہے۔ پرچہ مرتب کرنے والے کو اس امر کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی کہ وہ اپنی مرضی سے طلبہ کی سطح کا کوئی بھی مضمون، خط، درخواست یا کہانی سوالیہ پرچے میں شامل کر سکے۔ تخلیقی مہارت میں کمی کے مظاہرے آئے دن دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہمارا بی۔ایس یا ایم۔اے کیا ہوا طالب علم اپنے کسی کام کے لیے درخواست نہیں لکھ سکتا۔ ایسا نظام تعلیم کس کام کا جس سے ڈگریاں لینے والے ڈھنگ کے چار جملے بول سکیں نہ لکھ سکیں!
جہاں تک زبان شناسی یا قواعد کی بات ہے تو یہاں بھی ہمارے طلبہ رٹا لگاتے نظر آتے ہیں۔ قواعد کی تدریس کا مقصد طلبہ کو صحت کے ساتھ زبان بولنا اور لکھنا سکھانا ہے۔ یہاں بھی معاملہ اس کے برعکس ہے۔ طلبہ بغیر سوچے سمجھے تعریفوں اور مثالوں کو حفظ کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ امتحان ختم ہوا تو کسی کو کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔
استحسان اور تنقید کا پہلو بھی ہماری توجہ کا طالب ہے۔ استحسان اور تنقید کا مطلب ہے کسی فن پارے کو دیکھ کر اس میں خوبیوں اور خامیوں کو متوازن انداز میں بیان کرنا۔ آپ نے ایک نظم پڑھی۔ اس کے بعد آپ نے اس کا تنقیدی و استحسانی جائزہ لیا۔اس میں شاعر نے کیا پیغام دیا ہے؟ اس نے الفاظ کا چناؤ کیسا کیا؟ نظم میں آہنگ اور روانی کس درجے کی ہے؟ کسی اور شاعر نے بھی اس موضوع پر نظم کہی ہے تو دونوں نظموں میں کیا فرق ہے؟ آپ کو یہ نظم پسند آئی تو کس وجہ سے، اور اگر پسند نہیں تو وجہ ناپسندیدگی کیا ہے؟ان سوالوں کا جواب طالب علم کی استحسانی اور تنقیدی صلاحیت ہمارے سامنے لائے گا۔ اس مقصد کے لیے نصاب سے ہٹ کر کوئی ادب پارہ سوالیہ پرچے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ 
انگریزی زبان کی تدریس بھی کچھ مختلف نہیں۔ ہم اُردُو سے انگریزی اور انگریزی سے اُردُو میں ترجمہ کرنے کے لیے اقتباسات سوالیہ پرچے میں شامل کرتے ہیں۔ ترجمے کی مہارت کا مقصد یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ طالب علم اِس زبان کا فہم رکھتا ہے اور ایک سے دُوسری زبان میں ترجمہ کر سکتا ہے، لیکن ہم اس مہارت کا جائزہ بھی نصابی کتاب میں سے کوئی اقتباس دے کر لیتے ہیں۔ اُردُو سے انگریزی میں ترجمہ کرنے کے لیے بھی مخصوص اقتباسات ہیں۔ طالب علم اُن کو رٹا لگاتے ہیں اور یوں زبان کی تفہیم کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پرچہ مرتب کرنے والا طلبہ کی عمر اور ذہنی صلاحیتوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے کہیں سے بھی اقتباس شامل کر دے، مگر ایسا نہیں ہوتا۔ یہی حال انگریزی کے مضامین،  درخواستوں اور خطوط کا ہے۔ 
موجودہ نظام امتحانات ناکام ہو چکا ہے۔ یہ اُن مقاصد کا جائزہ ہی نہیں لیتا جو نصاب سازوں نے متعین کیے تھے۔ اِن حالات میں نظام امتحانات میں تبدیلیاں نہیں،  انقلاب لانے کی ضرورت ہے۔ 
عشق کو فریاد لازم تھی سو وہ بھی ہو چکی
اب ذرا دل تھام کر فریاد کی تاثیر دیکھ!

نوٹ : ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں