متعلقہ

جمع

ان کے لیے گھر جنہیں دنیا نے چھوڑ دیا۔۔۔۔

افسانہ تحریر: پارس کیانی ( ساہیوال،  پاکستان ) بارش تھم چکی...

ربط اضطرار۔۔۔چولہا بجھا ہوا تھا ۔۔۔آنسو سلگ رہے تھے ۔۔۔زندگی کے زخموں سے مایوسی رس رہی تھی

افسانہ از: پارس کیانی ساہیوال، پاکستان بارش ابھی پوری طرح سےتھمی نہیں...

میرے استاد نے بنایا ہے۔۔۔

Spread the love

میرے استاد نے بنایا ہے

میں تھی مٹی، تھی دھول راہوں کی
مشفقانہ، بسیط آنکھوں کی
مہرباں، اور شفیق بانہوں کی
تھی میسر اماں، پناہوں کی

آپ کا میرے سر پہ سایہ ہے
آپ ہی نے گلے لگایا ہے
آج جو کچھ بھی ہوں ، میں جیسی ہوں
میرے استاد نے بنایا ہے

اس جہاں کی ہر اک برائی کو
میری بے وجہ خود نمائی کو
مجھ سی بے حیثیت اکائی کو
اور مری فکری نا رسائی کو

چادر علم میں چھپایا ہے
آج جو کچھ بھی ہوں، میں جیسی ہوں
میرے استاد نے بنایا ہے

غم کی پرچھائیں تھی ستانے کو
جھوٹے رشتے تھے دل دُکھانے کو
ظلم اور جبر تھے رُلانے کو
تھے عناصر مجھے ہرانے کو

گردشِ وقت سے بچایا ہے
آج جو کچھ بھی ہوں ، میں جیسی ہوں
میرے استاد نے بنایا ہے

کلام : پارس کیانی
(ساہیوال، پاکستان)