شبیر احمد شگری
داماد رسولؐ،شوہر بتولؓ، اور حسنین کریمینؓ کے بابا حضرت علیؓ کی ذات کائنات میں وہ واحد ہستی ہیں جن کی ولادت بھی خدا کے گھر میں ہوئی اور شہادت بھی۔ اور ان کی ذات کی سب سے جداگانہ اہمیت وعظمت کا اندازہ صرف اسی بات سے ہی لگا سکتے ہیں کہ یہ سعادت کبھی کسی اور کو نصیب نہ ہوسکی۔
آپؓ کی زندگی بچپن سے ہی کبھی آغوش رسولؐ میں کبھی انکے شانہ بشانہ اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کا دفاع کرتے ہوئے گزری۔ کفار کے ساتھ لڑے جانے والی تمام جنگوں میں آپؓ نے بہادری کے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ ہمیشہ دشمنوں کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ اور آج تک چاہے جنگ کا میدان ہو یا کوئی بھی مقابلہ جب نعرہ حیدریؓ لگایا جاتا ہے تو ایک دم انسان کا جسم جوش اور ولولے سے لبریز ہوجاتا ہے ۔ اسلام کے لئے نہ صرف آپؓ کی بلکہ آپؓ کی آل کی قربانیاں لازوال ہیں۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے فیول سبسڈی ختم کرنے کا عندیہ دیدیا
آپؓ کی ولادت کے قریب حضرت فاطمہ بنت اسدؓ نے اپنے جسم کو کعبے کی دیوار سے مس کر کے دعا فرمائی ،دعا کے ساتھ ہی کعبے کی دیوار شگافتہ ہوگئی اور حضرت فاطمہ بنت اسدؓ کعبہ میں داخل ہوئیں تودیوار دوبارہ اصل حالت میں متصل ہوگئی ۔جو حاجی حضرات حج پر جاتے ہیں وہ اس شق دیوار کا مشاہدہ
بھی کرتے ہیں۔لاکھ کوشش کی گئی اس کو پُر کرنے کی مگرہر سال جب 13ا رجب یوم ولادت حضرت علی کا دن آتا ہے اس میں پھردراڑ پڑ جاتی ہے ۔
زمین کے سب سے مقدس مقام میں جس کی طرف پوری دنیا کے مسلمان رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں حضرت فاطمہ بنت اسدؓ 3 دن مہمان رہیں 13رجب کو بچے کی ولادت ہوئی اس کے بعد جب حضرت فاطمہ بنت اسدؓ نے کعبے سے باہر آنا چاہا تو دیوا دوبارہ شق ہوئی۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نام علی رکھا۔ آپؓ کے مشہور القابات مرتضیٰ، اسد اللہ، ید اللہ، نفس اللہ، حیدر کرار، نفسِ رسولؐ اور ساقی کوثر ہیں اور کنیت ابو تراب ہے ۔
مدینہ منورہ میں بس الٹ گئی، 8 افراد جاں بحق
حضرت علیؓ 3 سال کی عمر تک اپنے والدین کے پاس رہے اس کے بعد پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رہے ۔ اس آپؓ کوساری زندگی حضور پاکؐ کی رفاقت اور جانثاری نصیب ہوئی یہ خوش نصیبی دنیا میں کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی۔ آپؓ 10 برس کے عمر میں ہی اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رسالت کا اعلان کیا تو آپؓ نے ان کی تصدیق فرمائی ۔ آپ ہمیشہ رسول خداﷺکے ساتھ رہتے ، یہاں تک کہ جب پیغمبر اکرمﷺ شہر سے باہر، کوہ و بیابان کی طرف جاتے تو آپؓ کو اپنے ساتھ لے جاتے ۔
صدف کنول امید سے ہیں،بہروز سبزواری نے تصدیق کر دی
حضرت علیؓ کے دیگر افتخارات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب شب ہجرت مشرکین مکہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قتل کی ناپاک سازش کی تو آپؓ نے پوری شجاعت کے ساتھ رسول خداﷺ کے بستر پر سو کر ان کی سازش کو نا کام کر دیا۔
مسلمانوں کی جنگوں میں دیکھا جائے توجنگ بدرسب سے پہلی اور اہم جنگ تھی۔ جو 17 رمضان سنہ 2 ہجری کو بدر کے مقام پر مسلمانوں اور مشرکین قریش کے درمیان لڑی گئی۔ اس جنگ میں گوکہ مسلمانوں کی افرادی قوت کم تھی لیکن انہوں نے مشرکین پر فتح پائی۔ تاریخی حوالوں کے مطابق مسلمانوں کی فتح کے اسباب میں اہم سبب بطور خاص حضرت علیؓ اورحضرت حمزہ سید الشہداؓ کی جانفشانی تھی۔
“فوری الیکشن کروانے اور نہ کروانے سے موجودہ حکومت کو کن خطرات کا سامنا ہے؟”تجزیہ کار حسن نثار نے نشاندہی کر دی
جنگ احد ، احد نامی پہاڑ پر لڑی گئی۔پہاڑی پر سرکار دوعالمﷺ نے 50 تیر اندازوں کو بٹھایا تھا اور فرمایا تھا کہ ہمیں فتح ہو یا شکست ہو نیچے نہیں اترنا۔ لیکن جب مسلمانوں نے دیکھا کہ اسلام کو فتح ہورہی ہے تو مال غنیمت لوٹنے کے لئے نیچے چلے گئے ۔ تو خالد بن ولید نے پیچھے سے حملہ کردیا ۔ بعد میں
مسلمانوں کو جنگ میں فتح تو ہوگئی لیکن اسلام کو بہت نقصان پہنچا۔ اس جنگ میں کسی نے ندا دی کہ پیغمبرخداﷺ شہید ہوچکے ہیں۔ یہ خبر مسلمانوں کے حوصلے پست ہونے کا سبب بنی گھمسان کی لڑائی میں کئی مشرکوں نے رسول خداؐ کے قتل کی غرض سے حملے کئے جن کے نتیجے میں آپؐ کے دندان شہید ہوئے اور چہرہ مبارک زخمی ہوا۔ آپؐ پہاڑ میں موجود دراڑ کی پناہ میں چلے گئے ۔ حضرت علیؓ کے سوا رسول اکرم ﷺکے قریب کوئی اور نہ رہا۔ یہاں حضرت علیؓ حضور پاکؐ کی حفاظت کرتے ہوئے تنہابہادری سے لڑتے رہے حتٰی کہ تلوار ٹوٹ گئی۔حضرت علیؓ کی جانفشانی دیکھ کر حضرت جبرائیلؑ نے آپؓ کی تعریف و تمجید کی اور ان کی مشہور ملکوتی ندا ’’ لافتٰی الا علی لا سیف الا ذوالفقار ‘‘کی صدائے بازگشت میدان احد میں ہی سنائی دی۔ اورذوالفقار اتری اس جنگ میں آپؓ کے جسم مبارک پر لگے زخموں کی تعداد 90 تک پہنچی۔ آپؓ ہی کی استقامت کی وجہ سے ہزیمت زدہ مسلمانوں کی ایک جماعت ایک بار پھر رسول خداؐ کے گرد اکٹھی ہوئی۔ حضرت جبرائیلؑ نے امام علیؓ کے جہاد کی طرف اشارہ کرکے رسول اکرم ﷺکی خدمت میں عرض کیا کہ ’’یہ جانفشانی ہے‘‘ ، تو آپؐ نے فرمایا:’’ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں‘‘، حضرت جبرائیلؑ نے عرض کیا ’’میں بھی آپ سے ہوں اے رسول خداﷺ‘‘۔ جس جگہ حضور پاکؐ نے پناہ لی اور جہاں ذوالفقار اتری وہ پہاڑی مقام اور درہ احد کے مقام پر مدینہ میں موجود ہے۔
ہمایوں سے یہ بے پروائی ہوئی کہ بے شمار خزانے کے اٹھانے، لٹانے اور جشن منانے میں بہت سا وقت ضائع کر دیا
جنگ خندق میں بھی حضرت علیؓ کی بہادری کی وجہ سے کامیابی ہوئی۔اس جنگ میں اسلام کی فتح و نصرت اور کفار کی شکست اس قدر مؤثر تھی کہ رسول خداﷺنے فرمایا:’’ غزوہ خندق کے روز علی کی ایک ضربت ثقلین )جنات اور انسانوں( کی عبادت سے افضل و برتر ہے‘‘۔
اسی طرح غزوہ خیبرمیں کئی دن مسلمانوں سے جنگ فتح نہیں ہوسکی روز مسلمان ناکام لوٹتے آخر کار نبی مکرمؐ نے فرمایا:’’ میں کل ایک ایسے آدمی کو جھنڈا دوں گا جو خود بھی اللہ و رسولؐ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور رسولؐ بھی اس سے محبت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں فتح دیں گے ‘‘۔ جب صبح ہوئی تو نبی کریمؐ کی آواز بلند ہوئی:’’علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟‘‘ حضرت علیؓ حاضر خدمت ہوئے ، آشوب چشم میں مبتلا تھے آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی۔ نبی پاکؐ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن رکھا تو شفا ہو گئی۔ پھر آپؐ نے ان کو جھنڈا دیا۔ حضرت علیؓ کے مقابلے میں نامی گرامی جنگجو مرحب آیا۔ حضرت علیؓ نے مرحب کے سر پر ضرب لگائی اس کے جسم کے 2ٹکرے کردئیے اور قلعہ خیبر کا دروازہ جو انتہائی بڑا اور وزنی تھا اکھاڑ پھینکا۔ اور مسلمانوں کو زبردست فتح حاصل ہوئی۔
مصمم ارادہ کرلیں کہ جو کام آپ کے ذمے ہے اس کو بہتر طور پر کرنا ہے
حضرت علیؓ کے اوصاف اور بہادری کی داستانیں اگر بیان کرنے لگ جائیں تو ھم ان کی تعداد بھی نہیں گن سکتے ۔ اس لئے یہاں بھی انتہائی اختصار سے کام لیا جارہا ہے ۔
حضرت علیؓ دینی امور، قانون کے دقیق اجرا اور صحیح طریقے سے حکومت چلانے کے معاملے میں بے حد سنجیدہ و نظر انداز نہ کرنے والے تھے اور یہی سبب تھا جس نے آپؓ کو بعض افراد کے لئے ناقابل برداشت بنا دیا تھا۔ آپؓ اس راہ میں اپنے نزدیک ترین افراد کے ساتھ بھی سختی سے پیش آتے تھے ۔
حضرت علیؓ کو اپنی مختصر حکومت کے عرصے میں3 سنگین داخلی جنگوں جمل، صفین اور نہروان کا سامنا کرنا پڑا۔ چونکہ امیر المؤمنینؓ دین کے معاملے میں کسی کا لحاظ نہیں کرتے تھے اور اسی بناپرآپؓ بعض لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہو گئے تھے ۔ دین اورانصاف کے معاملے میں آپؓ کسی اپنے یا غیر کا لحاظ نہیں کرتے تھے ۔
جنگِ صفین کا انجام اپنے دامن میں بہت سے سبق اور عبرتیں لیے ہوئے ہے ۔آپؓ کا قاتل ابن ملجم ملعون بھی ایک خارجی تھا ۔ اس نے مسجد کوفہ میں آپؓ کے سر پر زہر میں بھجی ہوئی تلوار سے وار کیا جس سے آپؓ کا سر مبارک شگافتہ ہوگیا۔اور آپؓ نے فرمایا “فزت و رب الکعبہ” رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ اس طرح آپؓ نے شہادت پائی اوراس وقت مخفیانہ طور پر نجف میں دفن کئے گئے ۔ روضہ حضرت علیؓ شہر نجف میں مقدس مقامات میں شمار ہوتا ہے ،آپؓ کے روضے میں دیگر مشاہیر بھی مدفون ہیں۔آپؓ کی مشہور کتاب نہج البلاغہ آپؓ کے خطبات و اقوال و مکتوبات کا منتخب مجموعہ ہے ۔
کسی را میسر نہ شد این سعادت
بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت