لاہور ( نیوز ڈیسک )اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 15 مارچ کو عالمی یوم انسداد اسلاموفوبیا قرار دینے کی پاکستان کی پیش کردہ قرارداد منظور ہونے پر بھارت بوکھلا اٹھا ہے ۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے ، نہ ہی ہم کسی پہ الزام لگانا چاہتے ہیں ۔ خود بھارت اپنی بوکھلاہٹ کا اطہار کر رہا ہے ۔ آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ 15مارچ کو عالمی یوم انسداد اسلامو فوبیا قرار دینے سے آخر بھارت کو کیا مسئلہ ، کیا تکلیف ہے ؟ دراصل اقوام متحدہ میں بھارت کے سفیر ٹی ایس تریمورتی نے جنرل اسمبلی میں اسلاموفوبیا کیخلاف عالمی دن منانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ٹی ایس تریمورتی نے قرارداد کی منظوری پر ردعمل ظاہر
کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کہا کہ بھارت کو امید ہے کہ منظور کی گئی قرارداد ایسی کوئی نظیر قائم نہیں کرے گی جس سے منتخب مذاہب اور تقسیم پر مبنی فوبیا پر متعدد قراردادیں آئیں اور اقوام متحدہ کو مذہبی کیمپوں میں تقسیم کریں۔ ہندومت کے 1.2 بلین سے زیادہ پیروکار ہیں، بدھ مت کے 535 ملین سے زیادہ اور سکھ مت کے 30 ملین سے زیادہ لوگ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ ہم مذہبی فوبیا کے پھیلاؤ کو تسلیم کریں، بجائے اس کے کہ صرف ایک کو الگ کیا جائے۔
ٹی ایس تریمورتی نے بھارت عیسائی فوبیا یا اسلامو فوبیا سے متاثر ہونے والی تمام کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے فوبیا کسی ایک مذہب تک محدود نہیں ہیں، درحقیقت، اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ کئی دہائیوں سے اس طرح کے مذہبی فوبیا نے دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو بھی متاثر کیا ہے۔ دیگر ممالک کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 2019 میں 22 اگست کو پہلے ہی بین الاقوامی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا جا چکا ہے جس میں مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر تشدد کی کارروائیوں کے متاثرین کی یاد منائی جاتی ہے ۔ 16 نومبر کو رواداری کا بین الاقوامی دن بھی منایا جاتا ہے،ہمیں یہ منظور نہیں ہے کہ ایک مذہب کے خلاف فوبیا کو بین الاقوامی دن کی سطح تک بڑھایا جائے۔
اقوام متحدہ میں بھارت کے سفیر ٹی ایس تریمورتی کی بیان بازی پر پاکستانی مندوب منیر اکرم نے کرارا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اسلامو فوبیا کیخلاف عالمی دن منانے کا مقصد متحد ہونا ہے نا کہ تقسیم پیدا کرنا۔ اسلاموفوبیا ایک حقیقت ہےاور جنرل اسمبلی کے 193 اراکین نے نشان دہی کی کہ یہ فینومینا بڑھ رہا ہے
اور اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔
اس قرار داد کی منظوری پر بھارت تلملا اٹھا، قرارداد متفقہ طور پر منظور ہونے کے بعد کئی ممالک نے اس کو سراہا لیکن بھارت، فرانس اور یورپی یونین کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا اور کہا کہ دنیا بھر میں مذہبی عدم برداشت موجود ہے لیکن صرف اسلام کو الگ کر کے پیش کیا گیا اور دیگر کو خارج کردیا گیا ہے۔آئیے اب آپ کو بتاتے ہیں کہ پندرہ مارچ کو عالمی یومِ انسداد اسلاموفوبیا قرار دینے کی وجہ نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ کی مسجد پر حملے کی یاد تازہ کرنا ہے، جہاں 51 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے، یہ ملکی تاریخ کی بدترین اجتماعی فائرنگ تھی۔پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ سمیت عالمی فارمز پر وقفے وقفے سے اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور عالمی برادری سے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔جنوری میں کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ اسلامو فوبیا کسی بھی قیمت پر قابل قبول نہیں ہے اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنے ملک کو مسلمانوں کے لیے محفوظ بنائیں گے۔یہاں ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ دسمبر 2021 میں روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین، آزادی اظہار نہیں۔