spot_img

ذات صلة

جمع

وزیر داخلہ رحمٰن ملک کا دباؤ تھا کہ قتل میں جنرل مشرف کو ملوث کیا جائے۔بینظیر قتل کیس سےمتعلق راؤ انوار کا اہم انکشاف

کراچی ( مانیٹرنگ ڈیسک ) سندھ پولیس کے سابق سینئر پولیس افسر راؤ انوار نے بینظیر قتل کیس سے متعلق اہم انکشاف کیا ہے۔سینئر صحافی مظہر عباس کا بتانا ہے کہ راؤ انوار نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ اُنہوں نے بینظیر بھٹو کے قتل پر جے آئی ٹی رپورٹ پر دستخط اس لیے کیے تھے کہ اِن پر اس وقت کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک کا دباؤ تھا کہ قتل میں جنرل مشرف کو ملوث کیا جائے۔ واضح رہے کہ 27 دسمبر2007ء کو لیاقت باغ میں انتخابی جلسے کے بعد روانگی پر خود کش حملے کے نتیجے میں بینظیر بھٹو شہید ہوگئی تھیں جبکہ سانحہ کا مقدمہ تھانہ سٹی پولیس میں درج کیا گیا تھا۔ان کے قتل کے مقدمے کا مرکزی ملزم اکرام محسود تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آپریشن کا انچارج تھا جبکہ بیت اللّٰہ محسود کو حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا تھا۔راؤ انوار نے اب انکشاف کیا کہ طیب محسود کی قیادت میں ایک اور دہشت گرد گروپ 18 اکتوبر 2007ء کو کراچی میں بینطیر بھٹو پر حملے میں ملوث

تھا، جس میں 180 افراد ہلاک ہوئے تھے۔سابق پولیس اہلکار نے رحمٰن ملک کے کردار پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا، راؤ انوار کا خیال تھا کہ سابق وزیر داخلہ کو بینظیر بھٹو کی سیکیورٹی کے سربراہ کے طور پر اس کیس کی تفتیش کرنی چاہیے تھی، تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا۔راؤ انوار کو سابق صدر آصف علی زرداری کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔سابق اعلیٰ پولیس اہلکار نے یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ سابق وزیر داخلہ نے سابق وزیر اعظم کے دو بلیک بیری فون تقریباً دو سال تک اپنے پاس کیوں رکھے؟حال ہی میں کورونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد انتقال کرنے والے رحمٰن ملک نے اپنا بیان وفاقی تحقیقاتی ایجنسی یا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے پاس کبھی ریکارڈ نہیں کروایا۔اُس وقت کے صدرمملکت پرویز مشرف پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے بینظیر بھٹو کو مکمل سیکیورٹی فراہم نہیں کی تھی جبکہ عدالت اِنہیں مقدمے میں اشتہاری قرار دے چکی ہے۔سن2008ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی لیکن اس دوران بھی سابق وزیراعظم کے مقدمۂ قتل میں کوئی حوصلہ افزا پیش رفت نہ ہوسکی تھی۔

spot_imgspot_img