تحریک پاکستان کے قابل فخر کارکنوں، عینی شاہدین کے خیالات عالیہ
حاجی عبدالغنی:
تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن حاجی عبدالغنی نے کہا ہے کہ میں نے نہ صرف پاکستان بنتے دیکھا بلکہ اس کی بنیاد میں ایک اینٹ بھی رکھی ہے۔ میں مسلم لیگ یونیورسٹی علی گڑھ کا طالب علم تھا‘ قائداعظمؒ ہر سال اسی یونیورسٹی کا دورہ کرتے۔ اسٹریچی ہال میں ان کی تقریر ہوئی اور وہ طلبہ کو تعلیمی میدان میں پیش پیش رہنے کی تلقین کرتے۔ علی گڑھ نہ صرف تعلیمی میدان میں منفرد حیثیت رکھتا تھا بلکہ تحریکِ پاکستان کا بیس کیمپ بھی تھا۔ 1946ء میں جب قائداعظم علی گڑھ تشریف لائے تو طلبہ نے ان کا والہانہ استقبال کیا اور ان کی گاڑی ریلوے سٹیشن سے طلبہ خود کھینچ کر یونیورسٹی لائے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں خلاف توقع طلباء سے الیکشن میں حصہ لینے کی پرزور اپیل کی اور پاکستان بننے کے بعد جب قائداعطم نے پنجاب میں مسلمانوں پر ظلم کی داستانیں سنیں اور لٹے پٹے مہاجروں کی کسمپرسی دیکھی تو وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور ان کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔
میاں شمیم:
تحریک پاکستان کے کارکن میاں شمیم نے کہا کہ جولائی 1940ء میں انہوں نے اپنے کالج میں ایم ایس ایف کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد نومبر 1940ء میں بانی نوائے وقت حمید نظامی مرحوم سے ملاقات ہوئی جس کا اہتمام انور خان نے کیا تھا۔ اس موقع پر ظہور عالم شہید اور مولانا عبدالستار خان نیازی سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔انہوں نے کہا کہ لاہور کے حالات 1947ء میں خراب ہو رہے تھے۔ مارچ 1947ء میں بیرون موچی دروازہ میں پانچ چھ مسلمان شہید کر دیئے گئے۔ اطلاع ملی کہ اسلامیہ کالج پر رام گلی اور پریم گلی کی طرف سے حملہ ہو گا۔ اس کے بعد ہندوؤں اور سکھوں کا آگ لگانے کا پروگرام تھا۔ اس وقت کالج ہوسٹل میں چند ایک طلباء تھے۔ کالج کی نگرانی کے لیے ہم چوکس تھے۔ ہمارا ایک ساتھی عزیز احمد تھا صرف اس کے پاس ایک بندوق تھی۔ وہ مین دروازے پر چند طلباء کے ساتھ پہرہ دیتے تھے۔ ہم چند لڑکے اوپر کی منزل کی نگرانی کرتے تھے۔ ایک رات پریم گلی سے ایک جتھہ نعرے لگاتے ہوئے سڑک تک آیا نعرہ تکبیر اور اینٹوں کی ٹھک ٹھک سے وہ خوفزدہ ہو کر واپس گلی میں چلا گیا۔ 14 اگست کے قریب مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے قتل عام کی خبریں آنے لگیں پھر 14 اگست کا تاریخی دن آ گیا۔
صلاح الدین خواجہ:
تحریک پاکستان کے نامور کارکن اور گولڈ میڈلسٹ صلاح الدین خواجہ نے کہا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت سکھوں نے مسلمانوں پر جس قدر ظلم و ستم کیے اس کا منظر آج بھی آنکھوں کے سامنے سے ہٹا نہیں ہم کیسے بھولیں کہ ہمارے بزرگوں نے کس طرح اس ملک کو حاصل کرنے کے لیے کام کیا۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ موجودہ سیاست دانوں کو ملک کی دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کی پڑی ہے جبکہ اس وقت کے سیاست دان قائد کے ایک اشارے پر اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار ہو جاتے تھے انہوں نے کہا قیام پاکستان کے وقت ان کی عمر 19 سال تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح سے ان کی متعدد ملاقاتیں ہوئیں اور تحریک پاکستان کی جدوجہد میں انہوں نے جلالپور جٹاں میں قیام پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے بے پناہ کام کیا۔ ان علاقوں میں مسلم لیگ کے جلسوں میں سکیورٹی اور انتظامی امور کے کاموں میں ان کے والد بھی سرگرم رہے۔
سرتاج عزیز:
سابق وفاقی وزیر خزانہ و خارجہ امور اور پاکستان مسلم لیگ کے سابق سیکرٹری جنرل سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ میں نے 1944ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا تو اس وقت تحریک پاکستان زوروں پر تھی‘ چونکہ اسلامیہ کالج تحریک پاکستان کا ایک بہت ہی اہم مرکز تھا۔ اس کے بعد دو سال میں قائداعظمؒ تین دفعہ اسلامیہ کالج لاہور آئے۔ یہاں پر کئی دفعہ ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ قائداعظمؒ ہمیشہ طالب علموں کو اپنا بے غرض سپاہی کہتے تھے اور انہیں پاکستان کا پیغام پھیلانے کی تلقین کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ دسمبر 1945ء میں ہمارے کالج میں اچانک سنسنی پھیل گئی جب یہ افواہ سننے میں آئی کہ خاکساروں نے قائداعظمؒ پر حملہ کر دیا ہے۔ ہم سینکڑوں طلبا لاٹھیاں‘ ہاکیاں اور جو چیز بھی ہاتھ میں آئی‘ اسے لے کر ممدوٹ ولا پہنچے جہاں قائداعظمؒ ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہمارے وہاں آنے کی اطلاع پا کرقائداعظمؒ مسکراتے ہوئے باہر آئے اور کہنے لگے‘ میں خدا کے فضل سے محفوظ ہوں‘ آپ واپس چلے جائیں لیکن ہمارے زیادہ تر ساتھیوں نے کہا کہ ہم آج رات یہیں پہرہ دیں گے۔ اس کے بعد 25/24 طلبا کی ڈیوٹی لگی کہ دو دو گھنٹے کے لیے دو دو طالب علم برآمدہ میں اور باقی چار لڑکے گیٹ پر پہرہ دیں گے۔ اس طرح سردی کی یہ رات عظیم فرض کی ادائیگی میں گزاری۔ مارچ 1946ء میں قائداعظمؒ ہمارے کالج کے سالانہ کانووکیشن میں آئے۔
سید عبدالمجید:
تحریک پاکستان کے بزرگ رہنما اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن امرتسر کے روح رواں سید عبدالمجید کہتے ہیں۔14 اگست کا دن ہم مسلمانوں کے لیے بڑا بابرکت ثابت ہوا یہ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان اور تحفہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان کے روز میں امرتسر ہی تھا۔ جس وقت امرتسر میں یہ خبر سنی‘ اس وقت ہندوؤں اور سکھوں کی طرف سے مسلمانوں پر ہر طرح کے مظالم کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ اس وقت پورے شہر میں آگ لگانے اور لوگوں کو مارنے کی وارداتیں ہو رہی تھیں۔ کئی جگہ پر بم پھٹ رہے تھے۔ کئی مقامات پر دو دو تین تین روز سے کرفیو نافذ تھا۔ 14 اگست کے روز میں گھر پر اکیلا تھا۔ میرے گھر والے پاکستان جانے کے لیے نکل چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان کے وقت میرے جذبات ملے جلے تھے۔ ایک طرف پاکستان بننے پر خوشی سے آنسو نکل رہے تھے جبکہ دوسری طرف ہندوستان میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے دل دکھی ہو رہا تھا۔ 15 اگست کو جب ہندوستان کی آزادی کا اعلان ہوا تو انہوں نے امرتسر سمیت تمام علاقوں میں ترنگے جھنڈے لہرا دیئے۔
( بشکریہ : روزنامہ پاکستان )