متعلقہ

جمع

خاموشی کو توڑکر غزہ، لبنان، اور یمن کے بارے میں بات کرنی چاہیے

لاہور(ایس ایم ایس) خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران لاہور...

بلاول نے پہل کر دی

اسلام آباد ( ایس ایم ایس ) چیئرمین پیپلز...

کچھ نہیں چاہئیےمیرا میكا سجائے رکھنا

بیٹی شادی کے بعد سسرال جاتی ھے تب پرائی...

میرا پیمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عظیم تر ہے

Spread the love

تحریر :مفتی غلام مصطفیٰ رفیق
استاذ:جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
کسی بھی معاشرے ، کسی بھی سلطنت اور کسی بھی حکمران کے اقتدار کے بقاء کے لیے جو چیز لازم اور ضروری ہے وہ عدل و انصاف ہے۔عدل وانصاف ،کسی معاشرے سے اٹھ جائے، کسی مملکت سے اٹھ جائے، کسی سلطنت سے اٹھ جائے، کسی حکمران کے اقتدار سےعدل وانصاف ختم ہوجائے ،پھر نہ وہ معاشرہ باقی رہ سکتا ہے، نہ وہ سلطنت باقی رہ سکتی ہے، نہ اس حکمران کی حکمرانی اور اقتدار باقی رہ سکتاہے۔ہمارے مذہب میں معاشرتی تعلیمات میں عدل و انصاف کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔یہ عدل وانصاف حاکم کی طرف سے بھی اپنی رعایاکے لیے ہو،اور رعایا کا آپس میں بھی عدل وانصاف کو قائم رکھنا لازم ہے، گویا یہ اجتماعی سطح پر بھی اور انفرادی سطح پر بھی لازم اور ضروری امر ہے۔
خود نبی کریم ﷺعدل و انصاف کی بالادستی کے لیے کوشاں رہتے، عرب میں لڑائیوں کا سلسلہ تو زمانے سے جاری تھی، معمولی معمولی باتوں پر سالہا سال تک تلواریں چلتی رہتیں،لوٹ مار بھی عام تھی۔ کتبِ سیرت میں لکھا ہے کہ بعثت سے قبل اہل مکہ نے باہمی طور پر ایک معاہدہ کیا کہ اب ہم عدل و انصاف کے قیام کی کوشش کرتے ہیں ،مظلوموں کی حمایت کریں گے،کسی کے ساتھ ناانصافی ہوتو ہم اسے انصاف دلائیں گے، اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک تاریخ ساز معامدہ نامہ تیار کیا تھا، خود نبی کریم ﷺبھی اس معاہدے کا حصہ تھے اور یہ معاہدہ “حلف الفضول “کے مشہور ہے۔ ذوالقعدہ کے مہینے میں عبداللہ بن جُدْعان کے مکان پر یہ معاہدہ طے پایا تھا اور اس میں یہ لکھا گیا تھا کہ :کہ ہم سب مظلوم کی حمایت و نصرت کا عہد کرتے ہیں ،مظلوم کا ساتھ دیں گے یہاں تک کہ وہ اپنا حق پالے۔

رسول اللہ ﷺعدل و انصاف کی بالادستی پر مشتمل اس معاہدے کی اہمیت کے پیشِ نظر بعثت کے بعد عہدِ نبوت میں فرمایا کرتے”اس معاہدے کے مقابلے میں اگر مجھے سرخ اونٹ بھی دیئے جاتے تو میں ہر گز پسند نہ کرتا، اور اگر اب زمانہ اسلام میں بھی اس قسم کے معاہدے کی جانب بلایا جاؤں ،تو بھی اس کی شرکت کو ضرور قبول کروں گا”۔
قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کسی قوم سے آپ کی دشمنی ہےتو اس حال میں بھی ، حالانکہ یہ بڑا مشکل کام ہے، اس دشمنی بھی عدل وانصاف سے انسانی قدم نہ ڈگمگا ئیں۔اندازہ لگایئے کہ کیسی پاکیزہ تعلیمات ہیں۔اس کی اسلامی تاریخ میں بے شمار مثالیں ہیں، کہ سخت سے سخت دشمن سامنے موجود ہے مگر مسلمانوں نے اس جانی دشمن سے بھی بے انصافی کا معاملہ نہیں کیا، ایسے کڑے موقع پر بھی عدل کا دامن مضبوطی سے ،اور انتہائی مضبوطی سے تھامے رکھا ۔
قرآن کریم سورہ مائدہ آیت نمبر 7 میں ارشاد فرمایا گیا ہے, ترجمہ:”اے ایمان والو! اللہ کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی کا باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو ،انصاف کرو ،یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو جو کچھ تم کرتے ہو بے شک اللہ اس سے خبردارہے”۔
اس آیت میں انصاف کو ’’عدل‘‘ سے بیان فرمایا گیا ہے۔اور عدل کا بہترین اور جامع مفہوم علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے ذکر فرکیا ہےکہ “عدل” کا مطلب یہ ہے کسی شخص کے ساتھ بدون افراط و تفریط کے ،وہ معاملہ کرنا ،جس کا وہ واقعی مستحق ہے۔ عدل و انصاف کی ترازو ایسی صحیح اور برابر ہونی چاہیے کہ عمیق سے عمیق محبت اور شدید سے شدید عداوت بھی اس کے دونوں پلوں میں سے کسی پلے کو جھکا نہ سکے۔یعنی نہ محبت و تعلق آپ کو راہِ حق سے ہٹائے اور نہ عداوت ودشمنی آپ کو انصاف سے پھیر سکے۔بس یہی عدل ہے، یہی انصاف ہے ، جس کا حکم دیا گیاہے۔
رسول اللہ ﷺکو 7 ہجری ، محرم الحرام کے مہینے میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ حکم ملا کہ خیبر کی طرف پیش قدمی فرمائیں اور وہاں جو یہود غدار موجودہیں جنہوں نے موقع موقع پر مسلمانوں سے بدعہدی کی، غداری کی، کفار کو مسلمانوں کے خلاف اکساتے رہے، ان کے خلاف جہاد کریں۔چنانچہ رسول اللہ ﷺتقریباً 1600صحابہؓ کے ہمراہ خیبر کے لیے روانہ ہوئے، وہاں یہود مختلف قلعوں میں بند ہوگئے تھے، کئی دن کے بعد جاکر خیبر فتح ہوگیا۔تو یہود نے نبی کریم ﷺسے درخواست کی کہ ہمیں یہاں سے جلاوطن نہ کریں،

ہمیں یہیں رہنے دیں، ہم یہیں زراعت کریں گےاور جو پیداوار ہوگی اس کا نصف حصہ آپؐ کو دیا کریں گے، رسول اللہ ﷺنے ان کے ساتھ اس معاہدے کو قبول فرمایا ساتھ یہ بھی صراحت فرمادی کہ “جب تک ہم چاہیں گے تمہیں یہاں رکھیں گے، اور جب ہم چاہیں یہاں سے جلاوطن کردیں”۔اس معاہدے پر اتفاق ہوگیا۔اب یہ لوگ زراعت کرتے اور آدھا حصہ مسلمانوں کو دیتے۔
ابن ماجہ شریف کی روایت میں ہے کہ جب یہ لوگ زراعت سے فارغ ہوتے اور پیداوار کی تقسیم کا وقت آتا تو اندازہ لگانے کے لیے اور وصولی کے لیے رسول اللہﷺ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کو خیبر بھیجا کرتے تھے۔یہ وہاں جاکر ان یہودیوں کی اس پیداوار کو 2حصوں میں تقسیم کرتے ، اور 2 حصوں میں تقسیم کرکے ،یہ نہیں کہ اچھی اچھی خود لے لی اور باقی یہودیوں کو دے دی، بلکہ ان کا عدل و انصادف دیکھیے وہ بھی دشمن کے ساتھ، کہ پیداوار کے 2حصے بنانے کے بعد یہودِ خیبر کو اختیار دیتے تھے کہ ان دونوں میں سے جو حصہ تم چاہو لے لواور جو چاہو ہمیں دے دو۔
آج ہمارے معاشرے میں ، انفرادی اور اجتماعی سطح پر نظامِ عدل کو زنگ لگ چکا ہے،عمومی طور پر جس کو جہاں کچھ طاقت حاصل ہوتی ہے وہ وہاں ظلم اور افراط و تفریط کا شکار ہوجاتاہے۔کوئی عہدے کی بناء پر عدل سے ہٹ جاتاہے، کوئی اپنی چودھراہٹ کی بناءپر عدل سے ہٹ جاتاہے، کوئی وڈیرہ ہے تو اسے یہ زعم عدل وانصاف پر قائم نہیں رہنے دیتا،کسی کے پاس وزارت ہے، کسی کے پاس مال ہے، کسی کے پاس تعلقات ہیں، اور ان چیزوں کی وجہ سے انسان مغرور ہوکر دوسروں کے حقوق کو پامال

کررہاہے۔اور انسان یہ بھول جاتا ہے کہ ایک ایسی قدرت موجو دہے،ایک ایسی ذات موجو دہے، جو سب طاقتوں سے بڑھ کر ہے، جس کے سامنے ساری مخلوق کا جاہ وجلال ، رعب و دبدبہ ہیچ ہے، کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا، اور وہ ذات جب کسی کو اس کے ظلم اور ناانصافی کی وجہ سے پکڑتی ہے تو پھر مہلت نہیں دیتی۔
ہمارا مذہب ،ہر ہر فرد کو ، چاہے وہ حاکم ہو ، پھرحاکمِ اعلیٰ سے لے کر اس شخص تک جو ایک یا دو افراد کا ذمہ دار ہو،ہر ایک کو عدل کا حکم دیتا ہے۔اور عدل و انصاف زندگی میں ہر ہر شعبہ میں مقصود ہے، چاہے گواہی کی صورت ہو، تقسیم کی صورت ہو، گفتگو کی صورت ہو، فیصلہ کی صورت ہو یا اس کے علاوہ۔
اس لیے رسول اللہ ﷺنے ایسے لوگوں کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے، صحیح مسلم کی روایت میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ: “وہ لوگ جو انصاف کرنے والے تھے ،وہ قیامت کے دن اللہ رحمٰن کے دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے”اورحدیث کے آخر میں فرمایا : “یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے فیصلوں میں ، اپنے متعلقین میں، اور اپنے ماتحتوں ،اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے عدل و انصاف سے کام لینے والے تھے”۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے کو عدل و انصاف کا گہوارہ بنادے، اور ہر ہر فرد کو اپنے دائرہ اختیار میں عدل و انصاف کا پابند بنادے۔