متعلقہ

جمع

دنیا کے خاتمے سے متعلق اہم پیش گوئی سامنے آ گئی

معروف سائنسدان آئزک نیوٹن کی دنیا کے خاتمے سے...

وفاقی محتسب میں لیسکو کی بد انتظامی کےخلاف شکایات کی بھرمار

لاہور ( طیبہ بخاری سے )وفاقی محتسب اعجاز احمد...

مودی کی “موئے موئے ” ہو گئی

پیرس (ایس ایم ایس )بھارتی وزیراعظم مودی کو ایک...

 مدرسے میں بستروں کے نیچے سے بچے کی لاش برآمد

آزاد کشمیر ( نیوز ڈیسک )میرپور آزاد کشمیر کے...

بنگلہ دیش اور بھارت کشیدگی میں مزید شدت

کراچی (نیوز ڈیسک) بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان...

سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا… یادیں عدیم ہاشمی کی

Spread the love

تحریر: نیاز احمد مگسی
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
آج ہم آپ کو داستان سنائیں گے اردو کے مشہور و معروف شاعر عدیم ہاشمی کی۔اصل نام فصیح الدین اور تخلص عدیم تھایکم اگست 1946ء کو فیروزپور(ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ فیصل آباد میں پلے بڑھے، 1970ء میں لاہور آگئے۔ اسی دوران ان کا کلام ادبی جریدوں میں باقاعدگی سے چھپنے لگا۔ انھوں نے ریڈیو اورٹی وی کے لیے گیت بھی لکھے بعدازاں وہ راولپنڈی منتقل ہوگئے۔ 2001ء میں اپنے عزیز اورممتاز شاعر افتخار نسیم کے پاس امریکا چلے گئے۔عدیم ہاشمی طویل عرصے سے عارضۂ قلب میں مبتلا تھے،ان کا بائی پاس آپریشن ہوچکا تھا ۔پھر وہ وقت بھی آ گیا کہ انہین اس دنیا کو چھوڑ کر جانا پڑا 05 نومبر 2001ء کو شکاگو میں انتقال

کرگئے اور وہیں سپردخاک کرد یئے گئے۔ ان کی تصانیف کے چند نام یہ ہیں: ’’ترکش‘، ’مکالمہ‘، ’چہرہ تمھارا یاد رہتا ہے‘، ’فاصلے ایسے بھی ہوں گے‘، ’بہت نزدیک آتے جارہے ہو‘۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)، محمد شمس الحق،صفحہ:384
عدیم ہاشمی کے کلام میں سے منتخب کلام ملاحظہ کیجیے
۔۔۔۔۔۔
کیوں پرکھتے ہو سوالوں سے جوابوں کو عدیمؔ
ہونٹ اچھے ہوں تو سمجھو کہ سوال اچھا ہے
۔۔۔۔۔۔
اک کھلونا ٹوٹ جائے گا نیا مل جائے گا
میں نہیں تو کوئی تجھ کو دوسرا مل جائے گا
۔۔۔۔۔۔
بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ
اڑا دیئے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے
۔۔۔۔۔۔
ماہ اچھا ہے بہت ہی نہ یہ سال اچھا ہے
پھر بھی ہر ایک سے کہتا ہوں کہ حال اچھا ہے
۔۔۔۔۔۔
کٹی ہوئی ہے زمیں کوہ سے سمندر تک
ملا ہے گھاؤ یہ دریا کو راستہ دے کر
۔۔۔۔۔۔
پرندہ جانب دانہ ہمیشہ اڑ کے آتا ہے
پرندے کی طرف اڑ کر کبھی دانہ نہیں آتا
۔۔۔۔۔۔
ہم بہر حال دل و جاں سے تمہارے ہوتے
تم بھی اک آدھ گھڑی کاش ہمارے ہوتے
۔۔۔۔۔۔
ہوا ہے جو سدا اس کو نصیبوں کا لکھا سمجھا
عدیمؔ اپنے کیے پر مجھ کو پچھتانا نہیں آتا
میں دریا ہوں مگر بہتا ہوں میں کہسار کی جانب
مجھے دنیا کی پستی میں اتر جانا نہیں آتا
۔۔۔۔۔۔
وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا
۔۔۔۔۔۔
شور سا ایک ہر اک سمت بپا لگتا ہے
وہ خموشی ہے کہ لمحہ بھی صدا لگتا ہے
۔۔۔۔۔۔
جو مہ و سال گزارے ہیں بچھڑ کر ہم نے
وہ مہ و سال اگر ساتھ گزارے ہوتے
۔۔۔۔۔۔
صدائیں ایک سی یکسانیت میں ڈوب جاتی ہیں
ذرا سا مختلف جس نے پکارا یاد رہتا ہے
۔۔۔۔۔۔
وہ جو ترک ربط کا عہد تھا کہیں ٹوٹنے تو نہیں لگا
ترے دل کے درد کو دیکھ کر مرے دل میں درد ہے کس لئے
۔۔۔۔۔۔
مرے ہم راہ گرچہ دور تک لوگوں کی رونق ہے
مگر جیسے کوئی کم ہے کبھی ملنے چلے آؤ