متعلقہ

جمع

ابن انشا ایک بنجارے کے روپ میں…..

Spread the love

”چلتے ہو تو چین چلئے “،”دنیا گول ہے“،”ابن بطوطہ کے تعاقب میں “اور”آوارہ گرد کی ڈائری“میں ابن انشا ایک ایسے بنجارے کے روپ میں سامنے آتے ہیں جو گرد و پیش پر بیگانہ روی سے نظر ڈالتا ہے لیکن در حقیقت اس کی آنکھ اشیا ءکے باطن کو ٹٹولتی ہے اور ہمیں ان کے ماضی اور حال سے آشنا کرتی چلی جاتی ہے۔ ابن انشا کی منفرد خوبی ملکی اور غیر ملکی عادات کے درمیان موازانہ، رواں تبصرہ اور قول محال کی بوالعجبی ہے۔ ان کے اسی انداز نے سفر نامے کو پامال روایت سے الگ کر کے شگفتگی کی ڈگر پر ڈال دیا ہے۔ مثال کے طور پر” چلتے ہو تو چین کو چلیے“سے زیرِ نظر اقتباس ملاحظہ کیجئے جو سبک طنز میں لپٹا ہوا ہے۔
”پانی ابال کر پیتے ہیں، موبل آئل وہاں گاڑیوں میں ڈالا جاتا ہے۔ اصلی یابناسپتی گھی کہہ کر فروخت نہیں کیا جاتا۔ بھٹے کی اینٹیں بھی مکان بنانے کے کام آتی ہیں۔ ہلدی اور مرچ میں ملا کر ان سے تعمیر معدہ کا کام نہیں لیا جاتا۔ وہاں دودھ بھی گائیوں اور بھینسوں کا ہوتا ہے۔۔ تالابوں یا کمیٹی کے نلکوں سے حاصل نہیں کیا جاتا۔۔۔ وہاں آزادی کی سخت کمی ہے ہمارے ایک ساتھی جو اپنے ساتھ پاندان لے کر گئے تھے بار بار فرماتے تھے کہ یہ کیسا ملک ہے، جہاں سڑک پر بھی تھوک نہیں سکتے۔ ایک صاحب شاکی تھے کہ یہاں خریداری کا لطف نہیں، دکاندار بھاﺅ تاﺅ نہیں کرتے۔ ہوٹل کے بیروں کو بخششیں لینے اور مسافروں کو بخششیں دینے کی آزادی نہیں۔ بسوں اور کاروں کے اختیارات بھی محدود ہیں۔ آپ اپنی بس کو فٹ پاتھ پر نہیں چڑھا سکتے نہ کسی مسافر کے اوپر سے گزار سکتے ہیں۔ “
ابن انشا نے اپنے سفر ناموں میں عام قاری کی دلچسپی کے لئے معلوماتی مواد فراہم کرنے تاریخی واقعات بیان کرنے اور شخصیات کی سوانح نگاری کا فریضہ ادا کرنے کی کاوش بھی کی ہے۔ انہوں نے سفر نامے کو بیانیہ اسلوب میں بھی پیش کیا ، کہیں قاری کو خطاب کرنے کی سعی کی اور کہیں درویش کا روپ دھار کر داستانی اسلوب اختیار کیا۔انہوں نے سفر نامے میں طنز لطیف اس طرح شامل کیا ہے کہ بات میں عمق اور اثر آفرینی پیدا ہو جاتی ہے۔وہ دوسرے ممالک کے معاشروں میں خیر اور نیکی کی قدروں کی جستجو زیادہ کرتے۔ ان کے ہاں لفظوں، محاوروں اور ضرب الامثال کی ہیئت تبدیل کرنے اور مزاجی کیفیت پیدا

کرنے کا رجحان بھی نمایاں ہے۔ اپنی اس صلاحیت سے انہوں نے سفر ناموں میں جابہ جافائدہ اٹھایا ہے۔ سفر نامے میں ابن انشا نے طنزومزاح کے جو حربے کامیابی سے استعمال کئے ہیں ان کی چند مثالیںذیل میں ملاحظہ کریں:
”ریل میں ہر نشست کے ساتھ چائے کے گلاس رکھنے کی جگہ ہے۔ کام کرتے جائیے اور ایک ایک گھونٹ کے چسکے لگاتے رہیے۔ تھوڑی دیر میں کوئی آئے گا اور اس میں مزید گرم پانی ڈال جائے گا۔ معلوم ہوا کہ اس سے معدے کا نظام درست دیتا ہے۔ جراثیم کا دفعیہ ہو جاتا ہے۔ کم خرچ بلکہ بے خرچ بالا نشین۔ ہم نے بھی کچھ دن پانی پیا پھر چھوڑ دیا۔ کس برتے پرپیتا پانی۔“
”میزبانوں نے اپنا تعارف کرایا۔ یہ رسمی کار روائی تھی۔ سنتے گئے اور ہوں ہاں کرتے گئے۔ اگلی صبح

تک سب ایک دوسرے کے نام بھول چکے تھے۔ مہمانوں کا تعارف کرانا ہمارے ذمہ رہا۔ کیونکہ وفد کے لیڈر اراکین کے ناموں اور کاموں سے ابھی پوری طرح واقف نہیں تھے۔ ایک آدھ جگہ البتہ شمع ان کے سامنے پہنچی تو انہوں نے ہمیں پاکستان کا ممتاز اور مشہور ناول نویس قرار دیا اور چونکہ تردید کرنا خلاف ادب تھا۔ لہٰذا ایک مہمان کے اشتیاق آمیز استفسار کے جواب میں ہمیں اپنے ناولوں آگ کا دریا، خدا کی بستی، آنگن وغیرہ کی تعداد بتانی پڑی۔ وہ ان تصانیف کے نام بھی نوٹ کرنا چاہتے تھے لیکن ہم نے از راہ انکسار کہا کہ اس کی ضرورت نہیں۔“
(ڈاکٹر انور سدیدکی کتاب ”اردو ادب میں سفرنامہ“ سے)