امین کنجاہی
آج میرے بھانجے کے گھر بیٹا پیدا ہوا ہے اُس کا پہلا بچہ ہے تمام گھر اور خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی مٹھائیاں لائی جارہی ہیں کھلائی جارہی ہیں تقسیم کی جارہی ہیں میری بہن اپنے میاں کو کہہ رہی ہے کہ عقیقہ جلدی کرنا ہے اس میں دیر نہیں لگانی ۔ہم سب خاندان والے بہت خوش ہیں کہ رب تعالیٰ نے خاندان میں ایک اور ننھا فر شتہ بھیج دیا ہے اولاد کی خوشی اور وہ بھی اولاد ِ نرینہ خاندان میں بے تحاشا جوش و خروش کا اظہار کیا جاتا ہے اورکہا جاتا ہے کہ ہماری نسل اور آگے بڑھ گئی ہے۔ اِس سارے ماحول کو میں بہن کے گھر ڈرائنگ روم میں بیٹھادیکھ رہا ہوں سوچ رہا ہوں کہ یہ بچہ جو آج پیدا ہوا ہے آج سے تقریباً 28برس پہلے اسی گھر میں اس بچے کا باپ پیدا ہوا تھا اور ہم سب نے اسی طرح خوشی اور جشن منائے تھے اور پھر آج دوبارہ اسی گھر میں ایک اور وارث کے آنے سے رونق بڑھی ہے۔
میری بہن کے بڑے بیٹے کے بچے یہ نعرے لگا رہے تھے کہ” تبدیلی آئی نہیں تبدیلی آچکی ہے“ میں اب اس بچے کی زندگی کے بارے میں سوچ میں پڑ گیا ہوں ایک او ر سفر زندگی کا جس میں اس بچے نے ماں کی گود سے لے کر پہلا قدم اُٹھانے تک باپ کی انگلی پکڑ کر سکول جانے تک اور سکول سے کم سے کم دس برس کی پڑھائی پڑھنے کے بعد کالج میں داخل ہونے تک اور پھر آگے یونیور سٹی اور پھر یو نیور سٹی کے بعد نوکری کی تلاش ۔ اس سارے دورانئے کو گزرنے میں تقریباً شاید پھر 24برس گزر جائیں اور پھر نا جانے اُس وقت میں کہاں ہوں لیکن مجھے یہ یقین ضرور ہے کہ اس بچے کے شادی ہونے تک اور پھر اس کے ہاں کوئی نیاننھا فرشتہ آنے تک یقینامیں زندہ نہیں رہوں گا کیونکہ میری زندگی کی فصل جو میرے ماں باپ نے میرے وجود کی صورت میں بوئی تھی وہ اب پک کر تیار ہوچکی ہے اور وقت کی سردی گرمی بہار خزاں دھوپ چھاﺅں سے ہوتی ہوئی اب کٹائی کےلئے تیار ہے اور اب کائنات کا جو مالک ہے جو اس دنیا کا رب ہے جب بھی اُس کا حکم ہوا کسی وقت بھی میری باری آجائے گی اور مجھے بھی تمام دوسرے لوگوں کی طرح اور عام انسانوں کی طرح مٹی کے سپر د کر دیا جائے گا ۔مگر زندگی کی خواہش بڑی ظالم ہوتی ہے انسان اس دنیا سے رخصت ہونا نہیں چاہتا بھلے وہ کتنی ہی تکلیف میں کیوں نہ ہو بھلے اُسے کتنے ہی مسائل کیوں نہ درپیش ہوں بھلے وہ کتنی ہی غربت اور تنگ دستی میں ہی زندگی گزار رہا ہو مگر وہ دنیا کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔
دنیا ایک ایسا خوبصور ت خواب ہے جو انسان جاگتی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ یہ خواب یونہی ہمیشہ چلتا رہے اور اُس کی آنکھ کبھی نہ کھل سکے مگر ایسا ہونا ممکن نہیں۔ جو نفس اس کائنات میں آیاہے اُس کو فنا ہے اُس نے واپس لوٹ کر جانا ہے اُس کی تگ و دو ،زندگی سے محبت اُس کی خواہشات کبھی بھی مکمل نہیں ہو پاتیں ۔ہر دفعہ وہ اپنے دل میں رب سے یہ دُعا کرتا ہے کہ اے اللہ پاک! ابھی میرے بچے چھوٹے ہیں یہ بڑے ہوجائیں تو میں اس دنیا سے چلا جاﺅں تو خیر ہے پھر جب بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو وہ اللہ پاک سے دُعا کرتا ہے کہ میں اپنے بچوں کی شادیاں دیکھ لوں خوشیاں دیکھ لوں تو پھر بھلے تو مجھے اپنے پاس بُلا لینا ۔جب یہ مرحلہ بھی مکمل ہو جاتا ہے توانسان رب سے دُعا کرتا ہے کہ اے مالک مجھے اتنی مہلت تو دے کہ میں اپنے بچوں کے بچوں کو گود میں کھلا سکوں اور یوں ایک لامتناہی خواہشوں کا سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے نہ ختم ہونے والا۔ مگر رب نے ہر انسان کے اندر ایک الارم فٹ کر رکھا ہے اور ہر بندے کا الارم اپنے اپنے وقت پر بولتا ہے، وہ اس طرح کہ جب رب کے حکم سے ایک مقررہ وقت پر ہر شخص کا دل دھڑکنا بند ہوجاتا
ہے اور وہ خاموشی کا لبادہ اوڑھ کر اپنے گھر والوں کے بیچ میں میت کی صورت پڑا ہوتا ہے اور پھر وہی اُس کے بچے اُس کی بیوی بہن بھائی رشتہ دار جو اُس کی دھڑکن چلنے تک اُ س کو ابو جی ،بھائی جان، ماموں، کہہ کر پُکارتے تھے اُسے میت کہنے لگتے ہیں ۔
یہ کیا زندگی ہے یہ کیا سلسلہ ہے کبھی آپ نے غور کیا دنیا جو کہ ایک امتحان گاہ کی طرح ہے جس میں سب انسان اپنی اپنی اہلیت اور قابلیت کے مطابق پر چہ حل کررہے ہیں اور دنیا ایک کلاس روم ہے ہم سب نے اپنے پر چے حل کر کے اس کلاس روم سے چلے جانا ہے اور اس کا رزلٹ ہمیں یوم حشر بتایا جائے گا میرے نزدیک زندگی امتحان لیتی ہے لوگوں کی جان لیتی ہے ۔