تحریر: آغا نیاز احمدمگسی
ترکی کے معروف صحافی ، شاعر اور ڈرامہ نگار نامق کمال کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ نامق کمال سلطنت عثمانیہ کے دار الحکومت استنبول کے مغرب میں واقع علاقے تکیر داغ میں 21 دسمبر 1840ء کو پیدا ہوئے۔ آپ نے فارسی، عربی اور فرانسیسی تعلیم نجی حیثیت میں حاصل کی۔،آپ ترکی کے ایک قوم پرست شاعر، ناول نگار،مترجم اور سماجی مصلح تھے۔ آپ نے صوفیہ (موجودہ بلغاریہ، جو اس وقت عثمانی سلطنت کا حصہ تھا) کے قیام کے دوران شاعری کا باقاعدہ آغاز کیا اور نامق تخلص اختیار کیا۔ عربی اور فارسی کی تکمیل بھی اسی شہر میں کی اور باقاعدہ فرانسیسی زبان سیکھنے کا آغاز بھی یہیں کیا۔ آپ کی شادی بھی اسی شہر میں ہوئی۔ 1857ء میں آپ استنبول آ گئے اور باب عالی کے دفتر ترجمہ میں ملازمت اختیار کر لی۔ 5 سالہ دور ملازمت میں آپ کا استنبول کے ممتاز شعرائے کرام سے تعارف ہوا۔
نامق کمال کے افکار نے نوجوانان ترک اور ترک قوم پرست تحاریک پر زبردست اثرات ڈالے اور ترک زبان کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں بھی اپنا حصہ ڈالا۔ وہ ترکی زبان کے غیر ملکی طلبہ کے لیے لسانی مواد تیار کرنے والے بہترین مصنفین میں سے ایک تھے۔ ترکی کی مشہور ادبی شخصیت خالدہ ادیب خانم کے مطابق” نامق کمال کی ذات جدید ترکی کی محبوب ترین شخصیت تھی اور ترکی کے افکار و سیاست کی تاریخ میں ان سے زیادہ کسی دوسری شخصیت کی پرستش نہیں کی گئی”۔
ابتدا ءمیں وہ غالب لسکوفچالی سے انتہائی متاثر تھے جو علما ءکے طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور اسلامی اقدار و نظریات کے علمبردار تھے۔ بعد ازاں وہ مصنف اور اخبار “تصویرِ افکار” کے مدیر ابراہیم شناسی سے متاثر ہوئے جنہوں نے اپنا بیشتر وقت یورپ
میں گزارا تھا اور مغربی طرز فکر کے حامل تھے۔ شناسی نے نامق کو مغربی انداز اختیار کرنے کامشورہ دیا۔ 1865ء میں نامق اُس وقت تصویر افکار کے مدیر بنے جب شناسی فرانس چلے گئے تھے۔ تاہم 1867ء تک اس اخبار کی پیدا کردہ سیاسی ہلچل نے سلطنت عثمانیہ کے لیے مسائل کھڑے کر دیئے۔ کریٹ (اقریطش) کے مسئلے پر ایک اداریہ لکھنے پر اخبار پر ایک ماہ کی پابندی لگا دی گئی۔ سیاسی مضامین کے باعث” تصویر افکار” سلطنت عثمانیہ کاسب سے با اثر اخبار بن گیا۔ نوجوانان ترک کی اصطلاح سب سے پہلے اسی اخبار میں شائع ہوئی۔
1865ء میں ہی اصلاحات کے حامی چھ نوجوانوں نے اتفاق جمعیت (جسے اردو میں نوجوانان عثمان کہا جاتا ہے) کے نام سے خفیہ تنظیم قائم کی جس میں معروف ادیب و شاعر ضیاء گوک الپ اور نامق کمال کے نام نمایاں تھے۔ اس تنظیم کو ژون ترک لر، ارباب شباب ترکستان، گنج عثمانلی لر اور ینی عثمانلی کے مختلف ناموں سے پکارا جاتا تھا۔ حکومت کی جانب سے زیر عتاب آنے کے بعد مارچ 1867ء میں نامق کمال، ضیاء پاشا اور ان کے تیسرے ساتھی علی سعاوی پیرس روانہ ہو گئے۔
نامق کمال نے پیرس میں اپنا وقت مطالعے اور وکٹر ہوگو، روسو اور مونٹیسکیو جیسے فرانسیسی مصنفین کے ادبی کاموں کے ترکی میں تراجم کرنے میں گزارا۔ آپ نے یہاں ایک اخبار “حریت “بھی نکالا جو مالی امداد بند ہونے کے باعث 1869ء تک ہی چل سکا حالانکہ یہ اخبار بعد ازاں مالی امداد ملنے کے باعث دوبارہ شروع ہوا لیکن نامق نے پھر اس سے کوئی تعلق نہ رکھا۔
لندن، ویانا اور برسلز میں کچھ عرصہ قیام کے بعد 1871ء میں نوجوانان عثمان استنبول واپس آئے تو نامق کمال نے اخبار “عبرت” کے مدیر کی حیثیت سے اپنی انقلابی تحاریر جاری رکھیں۔
اسی زمانے میں آپ نے ایک متنازع ڈرامہ “وطن” تحریر کیا جو یکم اپریل 1873ء کو استنبول میں پیش کیا گیا جسے عثمانی حکومت نے قوم پرستانہ اور آزاد خیال افکار کے باعث خطرناک قرار دیا اور 9 اپریل کو نامق کمال کو قبرص میں نظر بند کر دیا گیا۔ یہ نظر بندی 3 سال 2ماہ جاری رہی۔ اس عرصے میں نامق نے کئی ڈرامے، ناول اور تنقیدیں لکھیں۔ سلطان عبد العزیز اول کی جگہ مراد پنجم کو خلیفہ بنایا گیا تو انہوں نے 3 جون 1876ء کو آپ کی معافی کا اعلان کیا اور یوں 29 جون 1876ء کو آپ استنبول واپس آئے۔
نومبر میں آپ شورائے دولت (کونس آف اسٹیٹ) اور آئین سازی کے لیے ذیلی مجلس کے رکن مقرر ہوئے۔ آپ اور ضیاء پاشا کی کوششوں ہی سے سلطنت عثمانیہ کا پہلا دستور (قانون اساسی)تیار ہوا۔ صرف 93 دن کی خلافت کے بعد سلطان عبد العزیز کو معزول کر دیا گیا اور ان کی جگہ عبد الحمید نے عنان اقتدار سنبھالی۔ ابتدا میں انہوں نے دستور کی پابندی کا وعدہ کیا لیکن جلد ہی آئین منسوخ کر دیا گیا۔ فروری 1877ء میں نامق کمال کو سلطان کو معزول کرنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ الزام سے بری ہونے کے باوجود آپ کو رہا نہ کیا گیا اور ساڑھے پانچ ماہ استنبول میں قید رہنے کے بعد آپ کو مدللی (Midilli) جلا وطن کر دیا گیا۔
آپ کی معروف ادبی تخلیقات میں “رویہ،زوالی چوجک،کربلا،عاکف بے،گل نہال،انتباہ” اور”امیر نوروز” قابل ذکر ہیں ۔ آپ کی چند تحاریر قلمی ناموں سے جبکہ متعدد بغیر نام کے شائع ہوئیں۔
ایک سماجی مصلح کی حیثیت سے نامق کمال کو 2 بنیادی خیالات کے باعث شہرت حاصل ہے: ایک وطن دوسرا حریت (آزادی)۔ ایک آزاد خیال مفکر ہونے کے باوجود نامق کمال نے اسلام کو کبھی مسترد نہیں کیا۔ آپ سمجھتے تھے کہ مذہب ایک آئینی حکومت کی حامل جدید ترکی ریاست سے مکمل مطابقت رکھتا ہے۔ آپ کے سب سے زیادہ مشہور ناول ” علی بین سرگزشتی“ (علی بے کی سرگزشت، 1874ء) اور 16 ویں صدی کے کریمیائی تاتاری خان عادل گیرائے کے حالات زندگی پر مبنی ناول ”جزمی“ (1887-88ء) ہیں۔
آپ نے” تصویر افکار”، “حریت” اور “عبرت” کے علاوہ دیگر اخبارات میں بھی مضامین لکھے جن میں مراۃ، مخبر، بصیرت، حدیقہ، اتحاد، صداقت، وقت اور محرر شامل تھے۔ نامق کمال کی حب الوطنی پر لکھی گئی تحاریر نے ترک قوم پرست تحریک اور جدید جمہوریہ ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کو بے حد متاثر کیا تھا۔
اپریل 1879ء میں آپ کو اسی جزیرے کا حاکم بنا دیا گیا۔5سال تک اس جزیرے کے حاکم رہے۔ اکتوبر 1884ء میں آپ کو جزیرہ رہوڈس کا حاکم بنا دیا گیا جہاں آپ3 سال حاکم رہے۔ انہوں نے رہوڈس کے کتب خانے کی توسیع میں ذاتی دلچسپی لی اور ہندوستان، ایران، مصر اور یورپ بھر میں گماشتے بھیج کر ذاتی خرچ پر کتب منگوائیں۔ بعد ازاں آپ کو ساکز (Chios) کا گورنر بنائے گئے، جہاں 2 دسمبر 1888ء میں آپ کا انتقال ہو گیا۔ وفات کے وقت آپ کی عمر محض 48 سال تھی۔ عارضی طور پر ساکز میں دفنائے گئے بعد ازاں صاحبزادے علی اکرم نے جزیرہ نما گیلی پولی کے قصبے بولیر میں ایک بزرگ سلیمان پاشا کے پہلو میں دفن کرایا۔ سلطان عبد الحمید نے قبر پر مقبرہ تعمیر کرایا۔