آ ج سے تقریبا 118سال قبل برصغیر میں مسلمانوں کے نا مساعد حالات کے پیش نظر ان کے سیاسی حقوق اورجدا گانہ حیثیت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے 30دسمبر 1906 کو ایک جماعت تشکیل دی گئی جس نے برصغیر کی آزادی کی تحریک کے دوران ہندو مسلم اتحاد کے خاتمے کے بعد کانگرس میں مسلمانوں کی نمائندگی کے فقدان کے پیش نظر مسلمانوں کے نظریات کو زبان دی جس کے نتیجے1930 ء میں علامہ اقبال کے الہ آباد خطاب میں پہلی بار ایک الگ مسلم ریاست کے قیام کا تصور پیش کیا گیا جو تحریک پاکستان کے آغاز کا سبب بنا ۔ 1906 ء میں تشکیل پانے والی اسی جماعت کی جہد مسلسل نے 1940میں قرار داد پاکستان منظور کروائی
اور قائد اعظم محمد علی جناح جیسے زیرک لیڈر کی قیادت میں 14اگست 1947ء کی روشن صبح برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں کے خواب کو تعبیر دی ۔ پاکستان کو خواب سے حقیقت بنانے والی یہ جماعت کوئی اور نہیں مسلم لیگ تھی ۔
پاکستان میں پہلی حکومت مسلم لیگ نے ہی بنائی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو پاکستان کا پہلا گورنر جنرل جبکہ لیاقت علی خان کو پہلا وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔یہ مسلسل جدو جہد کی تھکان تھی یا آزادی کا اطمینان جس نے اس جماعت میں اختلاف رائے کی آبیاری کی اور 1950 میں مسلم لیگ مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گئی۔ برصغیر کے مسلمانوں کی یہ نوزائیدہ ریاست کسی سیاسی عدم استحکام کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھی اس وقت سرحدوں کی حفاظت ضروری تھی۔ نئی ریاست میں پیدا ہونے والا سیاسی عدم استحکام آزادی کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتا تھا دشمن کسی بھی وقت حملہ کر کے پاکستان کو ایک بار پھر برصغیر پاک و ہند کے نقشہ میں ضم کر سکتا تھا اس لیے کمانڈ فوج کے ہاتھ میں دی گئی۔ جسے مسلم لیگ کی حمایت حاصل تھی ۔ مارشل لاء کے دوران مسلم لیگ کو کنوینشن مسلم لیگ کا نام دے دیا گیا۔
1970 میں بھٹو حکومت کے خاتمے اور جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کے دوران مسلم لیگ نے ایک نئی شکل اختیار کی اور پاکستان کے مرکزی صوبہ پنجاب میں ایک بار پھر اپنی ایک سیاسی شناخت بنائی ۔ 1988ء میں جنرل ضیا الحق کی وفات کے بعد میاں نواز شریف نے مسلم لیگ کے جس دھڑے کی قیادت سنبھالی
میاں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) نے 1990، 1997، اور 2013 میں تین بار انتخابات جیت کر حکومت بنائی اور ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو یقینی بنایا۔اداروں کی اصلاح اور نجکاری کی پالیسی اختیار کی ۔موٹر وے جیسی تجارتی اہمیت کی حامل شاہرات تعمیر کیں۔ متعدد رابطہ سڑکیں بحال کیں ۔ 1998 ء میں بھارت کے جوہری دھماکوں کے جواب میں چاغی میں کامیاب جوہری تجربات کر کے نا صرف ملکی دفاع کو مضبوط بنایا بلکہ پاکستان کو دنیا کی بڑی جوہری طاقتوں کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔ توانائی کے فقدان پر کنٹرول کے لیے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور قائد اعظم سولر پاور جیسے پروجیکٹس لگائے۔ دہشت گردی کو کنٹرول کیا اور سب سے بڑھ کر سی پیک جیسے منصوبے کی راہ ہموار کی جو صرف پاکستان کی ہی نہیں بلکہ پورے خطے کی اقتصادی حالت کو بہتر بنا سکتا ہے۔
مسلم لیگ ن کی قیادت کے لیے پاکستان کی تعمیر کا یہ سفر آسان ثابت نہیں ہوا۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا ء میں نواز شریف کی حکومت ختم کر دی گئی اور وہ جلاوطن ہو گئے۔2007 میں نواز شریف وطن واپس آئے اور 2013 میں دوبارہ جمہوری وزیر اعظم منتخب ہوئے ۔ یہ وہ دور تھا جب ان کی تمام تر توجہ سی پیک ، توانائی کے بحران کے حل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر مرکوز تھی۔ تاہم، 2017 میں پاناما لیکس کے بعد ایک بار پھر نا اہل قرار دے دیا گیا۔
میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کے عدالتی فیصلے کے بعد میاں محمد شہباز شریف نے مسلم لیگ ن کی قیادت سنبھالی۔ میاں محمد شہباز شریف مسلسل 10سال تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے بہترین منتظم کا اعزاز بھی حاصل کر چکے تھے ۔شہباز شریف نے پنجاب میں انفراسٹرکچر کے مثالی منصوبے متعارف کروائےصوبے کی معاشی ترقی میں کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ میٹرو بس سروس، سپیڈو اور اورنج لائن ٹرین کی شکل میں عالمی معیار کی سفری سہولیات فراہم کی گئیں۔ خصوصی اکنامک زونز اور کاروبار میں آسانی کے لیے ون ونڈو سروسز کا آغاز کیا اور سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کی۔ تعلیم اور صحت کے شعبہ جات میں عوامی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے وظائف، انڈومنٹ فنڈز ، مفت تعلیم اورمفت علاج کی سہولیات مہیا کیں ۔ دانش سکول جیسے سینٹرز آف ایکسیلنس بنائے گئے۔ دوست ممالک کے ساتھ تعلقات استفادہ کرتے ہوئے صوبے کو پہلا لیور ٹرانسپلانٹ ہسپتال PKLI دیا۔ مظفر گڑھ جیسے نسبتا چھوٹے شہر میں طیب اردگان جیسے ہسپتال کا قیام ممکن بنایا۔ توانائی کے بحران پر کنٹرول کے لیے پہلی بار صوبائی سطح پر پاور پلانٹس لگائے گئے۔ دہشت گردی پر کنٹرول کے لیے اینٹی ٹیررازم فورس قائم کی گئی۔۔
اب مریم نواز پنجاب میں مسلم لیگ ن کے مشن کو آگے بڑھا رہی ہیں ۔ تعلیم اور صحت کے شعبہ جات اگرچہ نواز اور شہباز ادوار میں بھی کلیدی اہمیت کے حامل تھے تاہم مریم نواز کی جانب سے مزکورہ شعبہ جات کے بجٹ میں اضافے کے ساتھ اس کے استعمال کو مزید موثر بنانے کے لیے نصاب کے ساتھ اساتذہ کے مسائل اور پسماندہ طبقات کے طلب علموں کی تعلیمی کارکردگی میں حائل ہونے والی رکاوٹوں پر بھی توجہ مرکوز کی جا رہی ہے ۔ بچوں کی ذہنی صلاحتیوں کی بہتری کے لیے غذائی قلت جیسے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔اس مقصد کے لیے گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد سکول میل پروگرام (School Meal Program ) متعارف کروایا جا رہا ہے ۔ایسے سکول جو، زیرو، یا سنگل یا ٹو ٹیچر تھے اور وہاں طلبہ کی تعداد کافی عرصہ سے 100 سے نیچے تھی، انہیں مختلف اداروں ،این جی اوز اور افراد کے حوالے کیا جا رہا ہے تاکہ ان سکولوں کی کارکردگی میں بہتری کے ساتھ طلبہ کی تعداد میں اضافے کو یقینی بنایا جا سکے اور سکولوں سے باہر بچوں کو سکولوں تک لایا جا سکے ۔ سکولوں کی اصلاح کے اس منصوبہ کو سکولز ری آرگنائزیشن کا نام دیا گیا ہے۔اساتذہ کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر کے سسٹم کو منظم بنانے اور کرپشن سے پاک کرنے کے لیے ای ٹرانسفر پالیسی متعارف کروائی گئی ہے جبکہ نصاب کو اپ ڈیٹ رکھنے اور خامیوں سے پاک کرنے ، اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے اور نئی بھرتیوں میں مسائل کی دوری کے لیے نئی تعلیمی پالیسی وضع کر دی گئی ہے۔ جس میں محکمہ تعلیم کے ایسے تمام مسائل کو زہر بحث لایا گیا ہے ۔ اس سب کے علاؤہ وزیر اعلیٰ مریم نواز نے طلبہ میں اعلی تعلیم کی جانب رغبت پیدا کرنے کے لیے نا صرف لیب ٹاپ سکیم بحال کر دی ہے بلکہ ان کی سفری مشکلات کو دور کرنے کے لیے موٹر سائیکلز کی فراہمی کے سلسلے کا بھی آغاز کر دیا ہے ۔ اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ موٹر سائیکلز سکیم میں لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کو بھی بھر پور نمائندگی دی گئی ہے۔ ہونہار طالب علموں کے لیے بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں تعلیم اور یوتھ لون پروگرام کا بھی آغاز کیا جا رہا ہے ۔ جو نہ صرف ان کے تعلیمی اخراجات کے بوجھ کو کم کرنے میں معاون ہو گا بلکہ انھیں سمال بزنس سے استفادے کے مواقع بھی فراہم کرے گا۔ اس ضمن میں ٹیوٹا اداروں کی اپ گریڈیشن بھی وزیر اعلیٰ کا ٹاپ ایجنڈہ ہے ۔ جو نوجوانوں کو تعلیم کے ساتھ فنی و پیشہ ورانہ تربیت کے زیادہ بہتر مواقعے مہیا کرے گی۔ ٹیوٹا کے تحت ٹریننگ پروگرامز کو عالمی منڈیوں کی ڈیمانڈ سے ہم آہنگ کیا جائے گا تاکہ تربیتی مقاصد کے ساتھ ساتھ روز گار کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔
صحت کی سہولیات میں بہتری کے لیے ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے دور میں بھی وقتا فوقتاً کی جاتی رہی ہے ۔وزیر اعلی مریم نواز پہلے سے موجود ہسپتالوں کی حالت زار میں بہتری کے ساتھ پنجاب کے عوام کو مقامی سطح پر ایمرجنسی سروسز اور فوری علاج کی سہولیات کی فراہمی کے لیے فیلڈ ہسپتال اور کلینکس آن ویل متعارف کروارہی ہیں جو لوگوں کو گھروں کی دہلیز پر خدمات کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے ۔ اس منصوبہ کے تحت پنجاب کے عوام گھر بیٹھے ایک موبائل ایپ کے ذریعے علاج و ادویات کی سہولت حاصل کر سکیں کے۔ چار سے پانچ ماہ کے اس مختصر دورانئے میں وزیراعلیٰ پنجاب میں پاکستان کی پہلی ائیر ایمبولینس سروس کے آغاز کا اعزاز بھی حاصل کر چکی ہیں۔ لاہور میں پہلے سرکاری کینسر ہسپتال کے قیام کی تیاریاں مکمل کی جا رہی ہیں ۔
پنجاب کی وزیر اعلیٰ اپنے عوام کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مہنگائی پر کنٹرول کے لیے ٹھوس اقدامات کر رہی ہیں اس ضمن میں جہاں باقاعدہ انفورسمنٹ اتھارٹی کے تحت گراں فروشوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف کاروائیاں عمل میں لائی جا رہی ہیں وہیں بجلی کے بھاری بلوں سے نجات کے لیے سولر سسٹمز کی فراہمی کے سلسلے کا بھی آغاز کیا جا چکا ہے۔ کم آمدن والے بے گھر افراد کو گھروں کی فراہمی کےلیے ہاؤسنگ سکیمز کے لیے سرکاری زمینیں مہیا کی جا رہی ہے ہیں۔
مریم نواز کا ایک اور بڑا کارنامہ آ ئی ٹی سٹی کا قیام بھی ہے ۔ جو دنیا بھر سے سرمایہ کاروں کو پنجاب میں سرمایہ کاری پر آمادہ کرے گا اس طرح آ ئی ٹی سٹی کے قیام سے
نا صرف نوجوانوں کے لیے تعلیم اور تحقیق کے نئے در وا ہونگے بلکہ صوبے میں سرمایہ کاری بھی بڑھے گی۔ کاروبار میں آسانی پیدا ہوگی ۔ معاشی سرگرمیوں میں اضافہ غربت اور بیروزگاری پر کنٹرول کو ممکن بنائے گا۔آ ئی ٹی سٹی میں اکنامک اور انڈسٹریل زونز کے قیام اور کاروبار میں آسانی کے لیے ون ونڈو سروسز اسے مزید موثر بنائیں گی۔
وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر تاریخ میں پہلی بار پنجاب کے ہر شہر، ہر گلی اور ہر محلے سے آ بادی کا ڈیٹا بیس تیار کیا جا رہا ہے جو صوبے میں سماجی تحفظ کے منصوبہ جات کی کوریج کو بہتر بنائے گا۔
بطور خاتون وزیر اعلیٰ مریم نواز کی دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ ایک بڑی ذمہ داری خواتین کے حقوق کا تحفظ بھی ہے جسے وہ روز اول سے یقینی بنا رہی ہیں۔ سیف سٹی اتھارٹی میں پہلے ورچوئل وویمن پولیس سٹیشن کا قیام اور وویمن سیفٹی ایپ کی سہولت مریم نواز کے اپنی ہم صنفوں کے لیے بڑے اقدامات ہیں۔ مستقبل میں پنجاب میں بہت سے ایسے اقدامات دیکھے جائیں گے جو خواتین کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے ۔
مختصراً یہ کہ تعمیر و ترقی کا یہ سلسلہ اسی طرح سے جاری رہا تو وطن عزیز کا استحکام یقینی ہے ۔
نوٹ: ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں