متعلقہ

جمع

آرمی چیف نہ مدت میں توسیع طلب کر رہے ہیں نہ قبول کرینگے، آئی ایس پی آر

Spread the love

اسلام آباد ( وی او پی نیوز )پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نہ تو مدت میں توسیع طلب کر رہے ہیں اور نہ ہی قبول کریں گے۔پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے آج ایک اہم پریس کانفرنس کی. آرمی چیف اپنی مدت پوری کرکے اس سال 29 نومبر کو ریٹائر ہوجائیں گے۔
فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں، نہ یہ مہم پہلے کامیاب ہوئی نہ اب ہوگی۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں دھمکیوں کے خلاف دن رات کام کر رہی ہیں۔ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اعلامیئے میں سازش کا لفظ نہیں ہے، آج کی پریس بریفنگ کا مقصد قومی سلامتی کی صورتِ حال سے آگاہ کرنا ہے۔ افواہوں کی بنیاد پر بے بنیاد کردار کشی کرنا کسی صورت قابلِ قبول نہیں، یہ ملک کے مفاد کے سراسر خلاف ہے۔ 3 ماہ کے دوران 128 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان کی طرف کسی نے بھی میلی آنکھ سے دیکھا تو اس آنکھ کو نکال دیں گے۔ڈی جی آئی ایس

پی آر نے 9 اپریل کی رات سے متعلق بی بی سی اردو کی سٹوری کے حوالے سے بتایا کہ 9 اپریل کی رات وزیراعظم ہاؤس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی اُس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ اس حوالے سے سب باتیں بالکل جھوٹ ہیں، بی بی سی نے بہت ہی واہیات سٹوری شائع کی، اس سے بڑا جھوٹ کسی انٹرنیشنل لیڈنگ ایجنسی کی طرف سے نہیں ہوسکتا، یہ ایک مکمل من گھڑت سٹوری تھی ایسا کچھ نہیں ہوا۔ایک سوال کے جواب میں میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ ہاؤس میں صدر کے چیمبر میں دو اعلیٰ افسران کی ملاقات سے متعلق مجھے کوئی علم نہیں۔عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے کوئی آپشن نہیں دیا تھا، ڈیڈ لاک کے دوران وزیرِ اعظم آفس سے آرمی چیف سے رابطہ کیا گیا کہ بیچ بچاؤ کی بات کریں۔
انہوں نے بتایا ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت آپس میں بات کرنے پر تیار نہیں تھی جس پر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وہاں گئے، مختلف رفقاء سے بیٹھ کر 3 چیزیں ڈسکس ہوئیں کہ کیا کیا ہوسکتا ہے، ان میں وزیرِ اعظم کا استعفیٰ، تحریکِ عدم اعتماد واپس لینا اور وزیرِ اعظم عمران خان کی طرف سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا آپشن تھا۔ تیسرے آپشن پر سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ یہ قابلِ قبول ہے، ہماری طرف سے اپوزیشن سے بات کریں جس پر آرمی چیف نے پی ڈی ایم رہنماؤں کے کے سامنے یہ گزارش رکھی جس پر سیر حاصل بحث ہوئی لیکن اپوزیشن نے اس پر کہا کہ ہم ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نہ تو مدت میں توسیع طلب کر رہے ہیں اور نہ ہی قبول کریں گے، آرمی چیف اپنی مدت پوری کر کے اس سال 29 نومبر کو ریٹائر ہو جائیں گے۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ نیوٹرل وغیرہ کوئی چیز نہیں، ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، فوج مستقبل میں بھی اپنا آئینی کردار ادا کرتی رہے گی۔ گر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ ہم نے مداخلت کی ہے تو سامنے لائے۔ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے، فوجی اڈوں کا کسی سطح پر مطالبہ نہیں کیا گیا، اگر مطالبہ ہوتا تو ہمارا جواب ’ایبسیلیوٹلی ناٹ‘ ہی ہوتا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بقا صرف اور صرف جمہوریت میں ہے، پاکستان میں کبھی مارشل لاء نہیں آئے گا۔ ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، جلسے جلوس جمہوریت کا حصہ ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ بھی کہا کہ ڈی مارش صرف سازش پر نہیں دیا جاتا، اس کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی وزیرِ اعظم شہباز شریف کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت نہ کرنے کے حوالے سے بتایا کہ اس دن آرمی چیف کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی او ر وہ اس دن آفس بھی نہیں آئے تھے۔